جمعرات,  11  ستمبر 2025ء
آپ نے پریشان نہیں ہونا۔۔۔!!

شہریاریاں۔۔۔تحریر: شہریار خان

پتا نہیں کیوں مگر لوگ اب یہ ماننے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ مسخروں اور جھوٹوں کی گڈی چڑھی ہوئی ہے۔۔ اگر ہم پاکستانی ٹی وی چینلز دیکھیں تو یہ دعویٰ بالکل درست لگتا ہے، سوشل میڈیا پہ نظر دوڑائیں تو بھی یہ بات بالکل صحیح معلوم پڑتی ہے اور اگر پوری دنیا کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا واقعی ایسا ہی ہے۔

ایک گلوکار بچپن سے ہی سیکھنا شروع کرتا ہے تو شہرت پاتا ہے، بچپن سے سریلا ہونے کے لیے محنت کرتا ہے تو سریلا بنتا ہے اور سریلا ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ نامور بھی ہو جائے گا، ہمارے ملک میں بہت سے ایسے گلوکار ہیں جو کمال کے گائیک ہیں مگر مشہور نہیں ہیں۔۔ وہ اچھے سے اچھا گانا گا کر بھی ہزار دو ہزار لوگوں تک پہنچتا ہے۔

راحت فتح علی خان اور عارف لوہار کے پراجیکٹس کے یو ٹیوب پر اگر ویوز کئی ملین ہوں تو کوئی حیرت نہیں ہوتی کہ ان لوگوں نے بچپن سے گلوکاری کی باقاعدہ تربیت لی۔۔ کچھ لوگ آواز کو بہتر بنانے کے لیے فلٹرز استعمال کرتے ہیں۔ آٹو ٹیونر لگا کر میرے جیسا بے سرا بھی سریلا ہو سکتا ہے۔

لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک شخص جس کی آواز بہت بھونڈی ہے۔۔ پھر وہ گانے کا وہ حشر کرتا ہے کہ انسان کو موسیقی سے نفرت ہو جائے، یعنی ان کا گانا سن کر موسیقی جو روح کی غذا ہے وہ سماعت کے لیے عذاب بن جاتی ہے۔۔طاہر شاہ کے آئی ٹو آئی کے بعد اگر کسی نے موسیقی کے ساتھ جبر کیا ہے تو چاہت فتح علی ہے۔

پھر بھی اس نے ایک بہت پرانے اور شاندار گانے کے ساتھ جو کیا، عقل حیران رہ گئی کہ یو ٹیوب پر وہ واہیات گانا سننے والوں کی تعدادایک ماہ کے اندر ہی دو کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔۔ یعنی ہم لوگوں کا انتخاب اب ایسے ہی لوگ ہوں، یہ ہے ہمارا ذوق۔۔
خیر جب ہم سیاسی منظر نامہ دیکھتے ہیں تو وہاں بھی ایسی دلچسپ مگر ہولناک صورتحال کا سامنا ہے، یہاں ایک شخص ہے جو اپنے آپ کو دنیا کا ایماندار ترین شخص سمجھتا تھا، وہ جو کہتا تھا کہ میں اقتدار میں آیا تو ملک کو قرضوں سے نجات دلوا دوں گا۔
وہ جو کہتا تھا کہ تمام سابق حکمران چور ڈاکو ہیں، میں اگر اقتدار میں آیا تو کرپشن کا خاتمہ کر دوں گا۔ میں ملک میں ڈیم بناؤں گا، میں وزیر اعظم ہاؤس کو گرا کر یونیورسٹی بناؤں گا، میں گورنر ہاؤس کی جگہ درس گاہیں تعمیر کروں گا۔ جب وہ اقتدار میں آیا تو اس نے جو کہا اس کے برعکس کیا۔

اس کے باوجود آج بھی اس کے چاہنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سچاہے، وہ ایماندار ہے۔۔ پونے چار سال میں جس نے آئی ایم ایف سے اتنا قرض لے لیا جتنا ستر سال میں دیگر چور ڈاکو حکمرانوں نے نہیں لیا تھا۔۔ وہ جو کہتا تھا جیل میں رہنے والوں کا اے سی پاکستان جا کر اتاروں گا اس نے عدالتوں سے کہہ کر سات بیرک کی ایک بیرک بنوائی، کھانے کے لیے دیسی مرغ اور مٹن کا بندوبست کروایا۔

آج بھی اس کے چاہنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ نیازی دوبارہ اقتدار میں آیا تو ملک میں ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی۔ وہ جس نے آئی ایم ایف کے ملازموں کو سٹیٹ بینک کا گورنر بنایا تھا وہ قرض کا کشکول توڑ دے گا۔وہ ساڑھے تین سو ڈیم جو اس نے فیس بک پر بنائے تھے وہ اب دریاکے درمیان منتقل ہو جائیں گے۔

ان کے چاہنے والے بہت دلچسپ باتیں کرتے ہیں۔ اور آج کل تو خبریں بھی بہت دلچسپ ہیں، آج کل ایسی ایسی دلچسپ خبریں سامنے آتی ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔۔ سائفر کیس چل رہا ہے اور معزز جج صاحب نے ایف آئی اے پراسیکیوٹر سے پوچھا کہ قیدی نمبر چار سو بیس کا جرم کیا ہے؟۔ پراسیکیوٹر نے بتایا کہ بطور وزیر اعظم وہ سرکاری راز کو افشا نہیں کر سکتے تھے۔۔ مگر انہوں نے یہ سائفر سے متعلق گفتگو جلسے میں کی جو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اس پر معزز جج نے سوال کیا کہ جرم کیا ہے؟۔
پراسیکیوٹر حیران ہوئے اور سمجھے کہ جج صاحب مذاق کر رہے ہیں مگر ان کے چہرے کی سنجیدگی ملاحظہ کی تو پریشان ہو گئے اور انہوں نے پھر مختلف گفتگو شروع کر دی۔۔ ہمارے ساتھ بھی اکثر ایسا ہو جاتا ہے کہ کسی بریکنگ نیوزپر جب رپورٹر کا بیپر ہوتا ہے تو نیوز کاسٹر مکمل ٹکرز پڑھنے کے بعد رپورٹر سے پوچھتی ہے جی بتائیے خبر کی کیا تفسیلات ہیں آپ کے پاس؟۔ رپورٹر تلملاتا ضرور ہے کہ تمام تفصیلات تو خود پڑھ دیں اب میرے بولنے کے لیے بچا کیا ہے؟۔ مگر پھر وہی ٹکر خود بھی دہرا دیتا ہے۔۔ ایسے ہی پراسیکیوٹر نے دوبارہ پرانے دلائل پڑھنا شروع کر دئیے۔

مزید پڑھیں: ابو بچاؤ مہم جاری ہے۔

اسلام آباد میں ہی عدت کیس میں سابق خاتون اول کے مرد اول بھی عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے جج صاحب سے درخواست کی کہ آپ یہ کیس نہ سنیں، جج صاحب نے ان کی یہ درخواست رد کر دی اور کیس سنتے رہے۔۔ آج جب کیس پر فیصلہ ہونا تھا تو خاور مانیکا جنہوں نے ریاست مدینہ کے قیام کے لیے اہم قربانی دی تھی۔۔ انہوں نے جج صاحب سے درخواست کی کہ آپ فیصلہ نہ سنائیں، کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ آپ انفلوئنس ہو گئے ہیں۔

امید یہ تھی کہ جج صاحب ان کی درخواست کو پھر رد کر دیں گے لیکن آج انہوں نے خاور مانیکا کی بات مان لی۔۔ فیصلہ نہیں سنایا اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے اس حوالہ سے راہنمائی مانگ لی۔ خاور مانیکا عدالت سے باہر نکلے تو قیدی نمبر چار سو بیس کے وکلا کے گروپ میں سے ایک جوشیلے وکیل نے خاور مانیکا کے منہ پر مکا دے مارا۔۔ مانیکا صاحب اپنا سا منہ لے کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔۔ مکا مارنے والے وکیل کی حمایت میں رؤف حسن نے پریس کانفرنس کی۔

رؤف حسن کا کہنا تھا عدالت میں خاور مانیکا نے بانی پی ٹی آئی کے لیے نازیبا کلمات ادا کیے تھے۔۔ دیکھئے۔۔ جس طرح سب خاور مانیکا کے حوالہ سے کہتے ہیں کہ ان کی غیرت بہت دیر سے جاگی۔۔ اسی طرح اس وکیل نے بھی کئی پیشیاں گزار دیں اور آج مکا ماراجبکہ مانیکا تو بہت مدت سے ایسی باتیں کر رہا ہوں۔۔۔ تو اس کی بھی بانی پی ٹی آئی کے لیے غیرت بہت دیر سے جاگی۔
بہرحال آج کل مسخروں کا دورہے۔۔ ان کی گڈی چڑھی ہوئی ہے۔۔ آج کل کا زمانہ چاہت فتح علی جیسے لوگوں کا ہی ہے اس لیے آپ نے پریشان نہیں ہونا۔

مزید خبریں