پی آئی اے تباہی کے دہانے پرکیسے پہنچا؟اوورسیز پاکستانی کھجل ہو کر واپس لوٹتے ہیں! رپورٹ میں ہوشربا انکشافات

اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز)پاکستان کی قومی ایئرلائن کے پاس موجود لگ بھگ آدھے جہاز اس وقت پرواز کے قابل نہیں ہیں اور انھیں فعال بنانے کے لیے درکار پیسوں کا بندوبست کرنے میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کو مشکلات کا سامنا ہے۔ پی آئی اے کے پاس کل 31 جہاز ہیں جن میں بڑی تعداد یورپی جہاز ساز کمپنی ’ایئر بس‘ کے بنائے گئے اے 320 کی ہے۔ امریکی جہاز ساز کمپنی بوئنگ کے جہازوں کی بھی کچھ تعداد پی آئی اے کے پاس موجود ہے۔ان میں 15 کے لگ بھگ جہاز ایسے ہیں جو پی آئی اے نے لیز پر حاصل کر رکھے ہیں یعنی پاکستانی قومی ایئر لائن کو لگ بھگ ہر ماہ لیزنگ کمپنیوں کو جہاز استعمال کرنے کے عوض پیسوں کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔

لیز کے علاوہ جہاز کو پرواز کے قابل رکھنے کے لیے پی آئی اے کو ایندھن، سپیئر پارٹس اور ایئر پورٹ کی سروسز استعمال کرنے کے لیے بھی پیسوں کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔ ٹیکس اور قرضوں کی اقساط اس کے علاوہ ہیں۔گزشتہ چند ماہ سے شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنے کی وجہ سے پی آئی اے ان فوری ادائیگیوں میں سے زیادہ تر مکمل نہیں کر پائی۔ پی آئی اے حکام کے مطابق یہ قابل ادا رقم 100 ملین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔پی آئی اے نے وفاقی حکومت سے امداد طلب کی تاہم حکومت نے براہِ راست اسے ایمرجنسی فنڈز دینے سے معذرت کر لی ہے۔

مقامی ذرائع ابلاغ پر سامنے آنے والی خبروں میں یہ کہا گیا ہے کہ ایسی صورت میں بات رواں ماہ میں پی آئی اے کے آپریشنز معطل ہونے تک پہنچ سکتی ہے۔تاہم بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پی آئی اے کے جنرل مینیجر پبلک افیئرز عبداللہ حفیظ خان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر درست نہیں ہے۔انھوں نے کہا ’پی آئی اے کو مالی مشکلات کا سامنا ضرور ہے تاہم ایسی بات نہیں جیسا مقامی ذرائع ابلاغ میں آ رہا ہے کہ 15 تاریخ یا اس کے آس پاس پی آئی اے کے آپریشنز معطل ہو سکتے ہیں۔‘

جی ایم پبلک افیئرز عبداللہ حفیظ کا کہنا تھا کہ پی آئی اے نے فوری طور پر انتہائی ضروری ادائیگیوں کے لیے قرض پر رقم حاصل کرنے کے لیے کچھ نجی بینکوں سے بات چیت کا آغاز کر رکھا ہے۔’امید ہے کہ ایک دو روز میں پی آئی اے کو وہاں سے قرض مل جائے گا اور فوری طور پر جو ادائیگیاں کرنی ہیں وہ کر دی جائیں گی۔‘ان کا کہنا تھا کہ ساتھ ہی ’جب کمپنی چل رہی ہے تو پیسہ کما بھی رہی ہے۔‘