اتوار,  22 دسمبر 2024ء
ن لیگ کے بعد پیپلزپارٹی بھی لیاقت باغ میں متاثر کن جلسہ نہ کرسکی،کیاعوام نے دونوں سیاسی پارٹیوں کو ردکردیا؟جانئے

راولپنڈی (روشن پاکستان نیوز) عام انتخابات 2024 کےلئے سیاسی جماعتوں کا مہم جاری ہے ، پاکستان مسلم لیگ( ن) کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کالیاقت باغ راولپنڈی میں جلسہ بھی ناکام ہوگیا۔

ایک تجزئیے کے مطابق راولپنڈی کے تاریخی لیاقت باغ میں پیپلز پارٹی کے لیے جلسہ ہمیشہ ہی انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس لیاقت باغ میں پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن اور سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا تھا۔ 27 دسمبر 2007 کو وہ ایک انتخابی جلسے سے خطاب کے بعد جب لیاقت باغ سے نکل رہی تھیں تو انہیں دہشت گردی کے ایک واقعے میں جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔اس لیے پیپلز پارٹی لیاقت باغ میں ہونے والے اپنے ہر جلسے کو یادگار اور پہلے سے بڑا جلسہ بنانے کی تگ و دو میں رہتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے انتخابی جلسے کے لیے تین بجے کا وقت دیا گیا تھا۔

ایک بجے کے قریب اسلام آباد سے فیض آباد کے راستے مری روڈ پر داخل ہوا تو مری روڈ پر ٹریفک کا بہاؤ معمول کے عین مطابق تھا اور جلسے کے کوئی مناظر نظر نہیں آرہے تھے۔ پانچ منٹ کی ڈرائیو کے بعد کمیٹی چوک پہنچے، راستے میں اکا دکا استقبالیہ بینرز نظر آئے۔ کمیٹی چوک سے لیاقت باغ کے عقب میں واقع راولپنڈی پریس کلب پہنچنے میں بھی کچھ زیادہ دقت نہیں لگا تھا۔کمیٹی چوک پہنچنے کے بعد ادھر ادھر سے آئی ہوئی ریلیوں کے باعث ٹریفک رکنا شروع ہو چکی تھی۔ جس وجہ سے گزرنے والوں کو مشکل کا سامنا کرنا پڑا اور ٹریفک میں قدرے تعطل آیا۔ گاڑی چلاتے ہوئے اپنے دائیں بائیں پھنسے لوگوں سے جب دریافت کیا کہ کیا وہ پیپلز پارٹی کے جلسے میں جا رہے ہیں تو ان کا جواب نفی میں تھا۔

زیادہ تر لوگ اپنے ذاتی کام کاج کے سلسلے میں نکلے ہوئے تھے اور اس ٹریفک میں پھنسے تھے، تاہم کئی ایک گاڑیاں مری روڈ کے دائیں بائیں پیپلز پارٹی کے جھنڈوں سے سجی نظر آئیں جن کے پاس کچھ کارکنان بھی موجود تھے۔جلسہ گاہ پہنچ کر جب صورتحال کا جائزہ لیا تو اندازہ ہو رہا تھا کہ راولپنڈی بلاول بھٹو زرداری کا ان کی توقع کے مطابق استقبال کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ تھوڑی دیر بعد ٹولیوں کی صورت میں کارکنان لیاقت باغ پہنچنا شروع ہو گئے۔

عوام کو جلسے کا جو وقت دیا گیا تھا اس وقت تک پنڈال میں کارکنان سے زیادہ سکیورٹی اہلکار موجود تھے۔ ایک دن قبل اسی میدان میں پاکستان مسلم لیگ ن بھی جلسہ کر چکی تھی اور وہ جلسہ بھی راولپنڈی سے مضبوط ترین سمجھی جانے والی جماعت کی امیدوں پر پورا نہیں اترا تھا اور شہباز شریف کے خطاب کے دوران کرسیاں خالی نظر آئیں، جس وجہ سے انہیں سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔اس صورتحال کو لے کر پیپلز پارٹی کے لیے لیاقت باغ کا جلسہ اور اہمیت اختیار کر گیا تھا۔ پنڈال کو بھرنے کے لیے مقامی امیدواروں اور راولپنڈی کے گرد و نواح سے تمام پارٹی رہنماؤں کو بڑی تعداد میں لوگوں کو ساتھ لانے کی ہدایات دی گئی تھیں۔تین بجے جب جلسہ شروع ہونے کا وقت آیا تو اس وقت تک راولپنڈی لیاقت باغ میں لگی کرسیاں خالی پڑی تھیں اور چند سو کارکنان ہی جلسہ گاہ کے اندر موجود تھے۔

سٹیج سے بار بار راولپنڈی کے عوام کو جلسہ گاہ پہنچنے اور کارکنان اور مقامی رہنماؤں کو خوش آمدید کہے جانے کے اعلانات ہو رہے تھے۔توقع کے برعکس پیپلز پارٹی راولپنڈی کے مقامی رہنماؤں کے بجائے مرکزی قیادت جن میں سید نیر حسین بخاری اور راجہ پرویز اشرف شامل تھے پہلے سٹیج پر پہنچے۔ سٹیج سے بار بار راولپنڈی شہر کے رہنماؤں کو سٹیج پر بلائے جانے کے اعلانات ہوتے۔ راولپنڈی کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں سے پیپلز پارٹی کے امیدواران بھی کچھ زیادہ سرگرم دکھائی نہیں دیے۔

لیاقت باغ کے احاطے کا ایک چوتھائی حصہ کرسیوں سے بھرا گیا تھا جہاں پیپلز پارٹی کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ پانچ ہزار سے زائد کرسیاں لگائی گئی ہیں، لیکن ان کرسیوں کو گننے پر معلوم ہوا کہ ان کی تعداد تین ہزار کے قریب ہے۔ چار بجے کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بٹو زرداری سٹیج پر پہنچے تو کارکنان نے وزیراعظم بلاول کے نعروں سے ان کا استقبال کیا۔ اپنی سابق کا روایت کے برعکس بلاول بھٹو زرداری نے سٹیج پر زیادہ وقت بیٹھنے کے بجائے فوراً خطاب کیا۔ جس وجہ سے پیپلز پارٹی کی سینیئر قیادت بھی خطاب سے محروم رہی۔ بلاول بھٹو زرداری نے بھی شہباز شریف کی طرح اپنا خطاب مختصر کیا اور 12 منٹ خطاب کرنے کے بعد جلسہ گاہ سے روانہ ہو گئے۔ جب بلاول بھٹو زرداری خطاب کر رہے تھے تو اس وقت جلسہ گاہ کے وسط کے بعد سینکڑوں کرسیاں خالی دکھائی دیں۔ جبکہ جلسہ کے لیے بنائے گئے سٹیج کے عین سامنے خواتین کا پنڈال بھی تقریباً خالی پڑا تھا۔ پیپلز پارٹی راولپنڈی ڈویژن کے مختلف اضلاع اور شہر جن میں اٹک، راولپنڈی، اسلام اباد، چکوال اور اس کے علاوہ کشمیر سے کارکنان لانے کے باوجود پیپلز پارٹی راولپنڈی میں متاثر کن شو کرنے میں ناکام رہی۔

اپنے مختصر خطاب میں بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ یہ کہہ چکی ہے کہ ان کو بلے کا نشان ان کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے نہیں ملا۔ بلاول بھٹو نے عوام پر زور دیا کہ وہ ازاد امیدواروں کو ووٹ دے کر اپنا ووٹ ضائع نہ کریں بلکہ شیر کا شکار کرنے کے لیے تیر کے نشان پر مہر لگائیں۔پیپلز پارٹی کوشش کررہی ہے کہ ہم ن لیگ کیخلاف بات کریں اور عوام کی ہمدردی حاصل کریںلیکن عوام کی طرف سے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو عوام کی طرف سے رد کیا جارہاہے۔

مزید خبریں