اسلام آباد (حفصہ یاسمین)پیپلز پارٹی کی رہنما اور رکن قومی اسمبلی سحر کامران ’قائد طلبا‘شہید نجیب احمد کی 33ویں برسی پر دعاگو رہیں۔انہو ں نے شہید سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ شہید نجیب احمد جب حبیب جالب کے ان اشعار کے ساتھ اپنی تقریر کا آغاز کرتے تو محسوس ہوتا کہ شاید یہ انہی کے لئے لکھے گئے ہیں۔
مرے ہاتھ میں قلم ہے، مرے ذہن میں اجالا
مجھے کیا دبا سکے گا، کوئی ظلمتوں کا پالا
مجھے فکر امن عالم، تجھے اپنی ذات کا غم
میں طلوع ہو رہا ہوں، تو غروب ہونے والا
بیشک وہ تاریکیوں میں اجالا تھے ان کی بہادری، ہمت، دلیری بےمثال تھی،وہ آج بھی طلوع ہے اور طلبا نظریاتی سیاست کا استعارہ ہیں۔
سحر کامران نے کہا کہ بعض لوگوں کی عمریں کم مگر کام بڑے ہوتے ہیں، شہید نجیب بھی انہی خوش نصیبوں میں سے ہیں جو بڑے کام کرکے ہمیشہ دلوں میں زندہ رہ گئے۔انہوں نے کہا کہ شہید نجیب نے طلباء کے مسائل کے حل میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا۔
واضح رہے کہ نجیب احمد کو گیارہ اپریل 1990 کو گھات لگائے مسلح افراد نے فائرنگ کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوئے اور اسپتال میں دم توڑ گئے تھے۔ پیپلزپارٹی نے اس قتل کا الزام اُس وقت کے اے پی ایم ایس او کے صدر خالد بن ولید اور اُن کے ساتھیوں پر عائد کیا تھا۔
پی ایس ایف کا دعویٰ ہے کہ نجیب احمد کی شہادت کے بعد بھی ایک ایک کرکے کراچی کے تعلیمی اداروں میں پی ایس ایف کے سرگرم کارکنوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا رہا اور ان کے سب کے پیچھے بھی اے پی ایم ایس او کے مرکزی صدر کا ہاتھ تھا جو مبینہ طور پر ڈیتھ اسکواڈ کا سربراہ تھا۔