الاسکا(روشن پاکستان نیوز) الاسکا میں ہونے والی سربراہی ملاقات کے آغاز پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایک ایسا مصافحہ کیا جو بظاہر گرمجوشی سے بھرپور تھا، مگر اس کے اندر طاقت کے کئی خفیہ اشارے چھپے ہوئے تھے۔
باڈی لینگوئج ماہر پیٹی این ووڈ نے امریکی جریدے ”نیوز ویک سے“ گفتگو میں اس مصافحے کو ’’احترام، کنٹرول اور مانوسیت‘‘ کا امتزاج قرار دیا، اور کہا کہ دونوں رہنماؤں نے یوکرین جنگ اور امریکا–روس تعلقات کے تناظر میں ”کیلکیولیٹڈ“ حرکات کیں۔
ووڈ کے مطابق ابتدا میں ٹرمپ کی ہتھیلی اوپر کی جانب تھی جو نسبتاً کمزور اور ماتحت رویہ ظاہر کرتی ہے، گویا ٹرمپ نے پیوٹن کو زیادہ طاقتور شخصیت کے طور پر قبول کیا۔
انہوں نے کہا کہ عام طور پر ٹرمپ ہاتھ اوپر رکھ کر برتری دکھاتے ہیں، لیکن اس بار انہوں نے اپنا مخصوص انداز اپناتے ہوئے مصافحہ اپنے جسم کے قریب رکھا، تاکہ دوسرے کو اپنی جانب کھینچ سکیں اور یہ کنٹرول کی علامت ہے۔ دونوں رہنما مسکراتے رہے اور ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے رہے، جس سے بظاہر دوستانہ ماحول جھلکتا تھا۔
تھوڑی دیر بعد ٹرمپ نے بائیں ہاتھ سے پیوٹن کے بازو پر تھپکی دی، جسے ماہر نے ’’ڈبل ہینڈ شیک‘‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ برتری جتانے کا اشارہ تھا، جیسے علامتی طور پر پیغام دیا جا رہا ہو کہ ’’اگر چاہوں تو وار کر سکتا ہوں۔‘‘
پیوٹن نے بھی فوراً ردعمل دیا، مگر جیسے ہی دونوں آگے بڑھے، ٹرمپ نے ہاتھ اوپر کر کے طاقت کا توازن پلٹ دیا۔ ماہر کے بقول یہ مصافحے کی شطرنج تھی۔
ووڈ نے یہ بھی نوٹ کیا کہ پیوٹن اس بار ڈھیلے ڈھالے انداز میں چل رہے تھے جبکہ چھ ماہ قبل وہ زیادہ سخت اور رسمی دکھائی دیتے تھے۔
دوسری جانب ٹرمپ اپنے بازو جسم سے قریب رکھے ہوئے تھے اور کبھی کبھار پیوٹن کی کہنی پکڑ کر کان میں سرگوشی کرتے، جو بیک وقت کنٹرول اور قربت کا اظہار تھا۔
مزید پڑھیں: پابندیوں کی دھمکی شاید پیوٹن کو ملاقات پر آمادہ کرنے میں مؤثر ثابت ہوئی، ٹرمپ
فوٹو سیشن کے دوران پیوٹن بار بار مُٹھی میں بھینچ کر چھوڑتے رہے، جسے ماہر نے ممکنہ طور پر آمادگی برائے ٹکراؤ یا پھر کسی جسمانی مسئلے کی علامت قرار دیا۔
ماہر کے مطابق اگرچہ دونوں رہنماؤں کے درمیان طاقت کا کھیل واضح نظر آیا، لیکن منظر عام نگاہ میں دوستانہ محسوس ہو رہا تھا۔
ووڈ کے مطابق، ’یہ یوں لگ رہا تھا جیسے دو پرانے دوست طویل عرصے بعد دوبارہ ملے ہوں‘۔