لندن (روشن پاکستان نیوز) — برطانیہ کی خفیہ ایجنسی GCHQ میں انٹرن شپ کرنے والے 25 سالہ حسن ارشد، جو راچڈیل میں معروف شیل ریٹیلر کے بیٹے ہیں، کو حساس اور خفیہ ترین نوعیت کا ڈیٹا اپنے گھر منتقل کرنے کے جرم میں سات سال چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
حسن ارشد نے کمپیوٹر میس یوز ایکٹ کے تحت جرم کا اعتراف کیا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے 24 اگست 2022 کو GCHQ کے سیکیور سسٹم سے موبائل فون کے ذریعے انتہائی خفیہ معلومات نکال کر ذاتی کمپیوٹر میں منتقل کیں۔ یہ معلومات نہ صرف ان کے اپنے پراجیکٹ سے متعلق تھیں بلکہ دیگر ٹیموں کے کوڈ نیمز اور ملازمین کے اصلی نام بھی شامل تھے۔
لندن کی اولڈ بیلی عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس ماورا میک گوون نے کہا کہ ارشد نے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالا، انٹیلیجنس اہلکاروں کی جانوں کو داؤ پر لگایا اور ہزاروں گھنٹے کی محنت اور قومی وسائل ضائع کیے۔ عدالت نے اسے “انتہائی سنگین اور خطرناک” اقدام قرار دیا۔
استغاثہ کے مطابق ارشد نے بغیر اجازت یہ ڈیٹا اپنے گھر منتقل کر کے قومی سلامتی کو “نمایاں خطرے” سے دوچار کیا، اور اگر یہ معلومات غلط ہاتھوں میں چلی جاتیں تو اس کے تباہ کن نتائج نکل سکتے تھے۔
حسن ارشد کو GCHQ میں سالانہ انٹرن شپ کے دوران انٹیلیجنس ٹولز اور ٹیکنیکس پر کام کرنے کی اجازت دی گئی تھی، اور انہوں نے آفس کے ضوابط کے تحت آفیشل سیکریٹس ایکٹ پر دستخط بھی کیے تھے۔ اس کے باوجود، وہ سیکیورٹی قواعد کو نظر انداز کرتے ہوئے حساس معلومات گھر لے گئے۔
مزید پڑھیں: پاکستان پریس کلب برطانیہ کے سالانہ انتخابات 15 جون کو لندن میں ہوں گے
مزید برآں، ان کی گرفتاری کے بعد پولیس کو ان کے ذاتی موبائل فون سے بچوں کی غیر اخلاقی اور فحش تصاویر (کیٹیگری A) بھی برآمد ہوئیں، جس پر دو اضافی الزامات بھی لگائے گئے۔
حسن ارشد کی وکیل نینا گراہم کے مطابق، ان کا موکل “بے احتیاط، نادان اور سادہ لوح” تھا اور وہ محض اس پراجیکٹ کو مکمل کرنے کے جذبے کے تحت ڈیٹا گھر لے گیا تاکہ مستقبل میں GCHQ میں ملازمت حاصل کر سکے۔ وکیل نے یہ بھی بتایا کہ حسن ارشد آٹزم اسپیکٹرم پر ہیں اور نیورو ڈائیورجنٹ ہیں۔
عدالت نے تاہم ان دلائل کو تسلیم نہ کرتے ہوئے کہا کہ ارشد “علمی تکبر” کا شکار تھا اور سمجھتا تھا کہ “قوانین اس پر لاگو نہیں ہوتے”۔
یہ واقعہ برطانیہ کی خفیہ ایجنسیوں اور قومی سلامتی کے نظام کے لیے ایک بڑا جھٹکا تصور کیا جا رہا ہے، جہاں انتہائی تربیت یافتہ اور سیکیورٹی کلیئرنس یافتہ افراد کی طرف سے اس طرح کی خلاف ورزیاں نہایت تشویشناک ہیں۔