لندن/دبئی (روشن پاکستان نیوز) برطانیہ سے تعلق رکھنے والے 34 سالہ شہری جارڈن ہاؤمین کو اس وقت شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب اسے چہرے پر موجود ٹیٹوز کی بنیاد پر متحدہ عرب امارات میں داخل ہونے سے روک دیا گیا اور دبئی ایئرپورٹ سے واپس مانچسٹر ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ جارڈن کے مطابق اس نے اپنی منگیتر تھریسا (38) اور 16 سالہ بیٹی کے ساتھ دبئی میں چھٹیاں منانے کے لیے £3000 خرچ کیے تھے، مگر ان کا “خوابوں کا سفر” صرف چند گھنٹوں میں ہی ختم ہو گیا۔
جارڈن نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے “بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک” کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ چہرے پر ٹیٹوز کوئی جرم نہیں ہیں، اور متحدہ عرب امارات کے قوانین میں اس پر کوئی باقاعدہ پابندی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا: “میری منگیتر رو رہی ہے، یہ سب میرے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔ مجھے صرف میرے ظاہری حلیے کی وجہ سے ملک میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔”
دبئی پہنچنے کے بعد ایئرپورٹ کے الیکٹرانک گیٹس سے گزرنے کے بعد جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا ان کے پاسپورٹ پر مہر لگی ہے، تو ایک اہلکار نے مبینہ طور پر جارڈن کا پاسپورٹ ان کے ہاتھ سے چھین لیا۔ جارڈن نے الزام عائد کیا کہ یہ محض ایک بہانہ تھا تاکہ انہیں داخلے سے روکا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں ایئرپورٹ پر 6 گھنٹے روکے رکھا گیا، جس دوران ان کی منگیتر اور بیٹی ہوٹل پہنچ چکی تھیں۔ بعدازاں امیگریشن کے ایک افسر نے انہیں مطلع کیا کہ ان کے چہرے پر ٹیٹوز کی وجہ سے انہیں ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ “ایک خاتون افسر نے مجھے اوپر لے جا کر امیگریشن آفس میں بٹھایا، جہاں مجھے بتایا گیا کہ: ‘تمہیں چہرے کی وجہ سے اندر نہیں آنے دیا جا رہا۔'”
مزید پڑھیں: ڈزنی لینڈ پیرس میں 9 سالہ بچی سے جعلی شادی کی کوشش، برطانوی شہری گرفتار
جارڈن کے مطابق یہ ان کے لیے انتہائی تکلیف دہ تجربہ تھا، کیونکہ دبئی ان کا پسندیدہ ملک تھا، اور وہ بارہا وہاں جا چکے تھے۔ “اب میں کبھی دوبارہ دبئی نہیں جاؤں گا۔ میں نے صرف چہرے کے ڈیزائن کی وجہ سے اپنے پیسے بھی گنوا دیے اور چھٹیاں بھی۔”
جارڈن کے مطابق انہیں صرف مانچسٹر پہنچنے کے بعد ان کا پاسپورٹ واپس کیا گیا، جبکہ ان کی منگیتر اور بیٹی بظاہر دبئی ہی میں مقیم ہیں۔
دبئی دنیا بھر میں سیاحوں کے لیے ایک پرکشش مقام سمجھا جاتا ہے، مگر وہاں کے سخت امیگریشن قوانین غیر متوقع طور پر کسی بھی مسافر کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں، چاہے کسی مخصوص چیز پر کوئی واضح قانون نہ بھی ہو۔