غزہ(روشن پاکستان نیوز) غزہ سے تعلق رکھنے والی 25 سالہ فوٹو جرنلسٹ فاطمہ حسونہ ایک اسرائیلی فضائی حملے میں شہید ہو گئیں۔
اس حملے میں ان کے ساتھ ان کے 10 خاندان کے افراد بھی جاں بحق ہوئے، جن میں ان کی حاملہ بہن بھی شامل تھیں۔
فاطمہ نے پچھلے ڈیڑھ سال میں جنگ کی تباہ کاریوں کو اپنی کیمرے کی آنکھ سے دنیا کے سامنے لانے کا بیڑا اٹھایا ہوا تھا۔ انہوں نے نہ صرف فضائی حملوں کی تصاویر لیں بلکہ اپنے ہی تباہ شدہ گھر اور مرنے والے رشتہ داروں کے مناظر کو بھی دنیا تک پہنچایا۔
شہادت سے کچھ روز پہلے فاطمہ نے سوشل میڈیا پر لکھا تھا،’ اگر میں مر جاؤں تو میری موت خاموش نہ ہو، میں صرف ایک خبر یا نمبر نہ بنوں، میری موت ایسی ہو جو دنیا سنے، اور میری تصویر وقت کو چیر کر باقی رہے۔’
بدقسمتی سے ان کی یہ خواہش حقیقت میں بدل گئی۔ بدھ کے روز ان کے گھر پر فضائی حملہ ہوا جس میں وہ اور ان کے اہلِ خانہ شہید ہو گئے۔ ان کی شادی میں صرف چند دن باقی تھے۔
فاطمہ کی زندگی پر بننے والی ایک دستاویزی فلم کا اعلان بھی صرف ایک دن پہلے کیا گیا تھا، جسے فرانس کے ایک فلم فیسٹیول میں پیش کیا جانا تھا۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، 7 اکتوبر کے بعد سے جاری جنگ میں اب تک 51 ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں جن میں نصف سے زیادہ خواتین اور بچے شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: “احتجاج نہیں، حل کی طرف قدم بڑھائیں” — پیر سید محمد علی گیلانی کا غزہ کے مسئلے پر بصیرت افروز پیغام مرکزی
اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ حملہ ایک ایسے شخص کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا جو اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں پر حملوں میں ملوث تھا۔
فاطمہ حسونہ اب اس دنیا میں نہیں رہیں، مگر ان کی تصاویر اور ان کی کہانی ہمیشہ زندہ رہے گی۔