نواکشوط(روشن پاکستان نیوز) موریطانیہ میں حالیہ برسوں میں ایک ایسا انوکھا اور متنازعہ مارکیٹ ابھرا ہے جہاں خواتین طلاق کے بعد اپنے شوہروں سے ملے ہوئے جہیز کو بیچ کر یا اس میں اپنا کاروبار شروع کر کے معاشی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہیں۔ اس مارکیٹ کا مقصد یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ خواتین کو معاشی طور پر خود مختار بنایا جائے، مگر یہ حقیقت میں ایک سنگین سماجی اور اخلاقی بحران کا اشارہ بھی ہے۔
موریطانیہ ایک مسلمان اور روایتی معاشرتی ڈھانچے والا ملک ہے جہاں طلاق اور اس کے بعد کے معاملات ہمیشہ حساس رہے ہیں۔ یہاں کا معاشرہ عموماً خواتین کو اپنے گھریلو کردار تک محدود رکھتا ہے، لیکن حالیہ برسوں میں بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح اور خواتین کی معاشی آزادی کی طرف مائل ہونے کے باعث ایک نیا رجحان سامنے آیا ہے۔ اس مارکیٹ میں خواتین نہ صرف جہیز کی اشیاء بیچ رہی ہیں بلکہ کئی خواتین وہاں پر کاروبار بھی شروع کر رہی ہیں۔
سماجی پہلو:
یہ مارکیٹ ایک طرف خواتین کو خودمختار بنانے کے نام پر ان کی معاشی آزادی کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن دوسری طرف یہ طلاق کے بعد کی تلخ حقیقتوں کو ایک معاشرتی رسم و رواج کی صورت میں پیش کر رہی ہے، جو کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ کیا یہ مارکیٹ خواتین کے حقوق کی حقیقی ترجمانی کرتی ہے یا پھر ان کے عزت نفس کو مجروح کرتی ہے؟ جب عورت کو اس کے جہیز کی اشیاء بیچ کر کاروبار شروع کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، تو یہ دراصل اس کے خود اعتمادی اور شخصیت کو شدید نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتا ہے۔
اخلاقی بحران:
یہ بازار نہ صرف مادی طور پر خواتین کو کمزور کر رہا ہے بلکہ یہ ان کے کردار اور عزت کے بارے میں معاشرتی تصورات کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ یہاں جو خواتین کاروبار شروع کرتی ہیں، انہیں نہ صرف طلاق کے بعد کی دشواریوں کا سامنا ہوتا ہے بلکہ معاشرتی دباؤ بھی بڑھتا ہے۔ یہ ایک ایسا پیغام دیتا ہے کہ طلاق کے بعد کی زندگی صرف ایک معاشی وسیلے تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے، جس سے اس کے جذباتی اور نفسیاتی پہلو نظر انداز ہو جاتے ہیں۔
مزید پڑھیں: راولپنڈی پولیس کی خواتین پر تشدد کی روک تھام، منشیات و ناجائز اسلحہ کے خلاف سخت کارروائیاں
معاشی اثرات:
اس مارکیٹ کا مقصد خواتین کو معاشی طور پر خود مختار بنانا تو ہے، لیکن یہ ایک خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے، جہاں طلاق اور اس سے وابستہ دیگر پیچیدہ مسائل کو تجارتی نقطہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک طرف تو یہ مارکیٹ خواتین کے لیے مالی فائدہ کا ذریعہ بن سکتی ہے، لیکن دوسری طرف یہ ان کی ذہنی و جذباتی حالت پر منفی اثرات ڈال سکتی ہے۔ خواتین کی اصل آزادی صرف مالی خودمختاری تک محدود نہیں ہوتی، بلکہ ان کا ذہنی سکون اور عزت نفس بھی اسی میں شامل ہے۔