لندن(صبیح زونیر)برطانیہ کی نئی ڈیپینڈنٹ ویزہ پالیسی نے کم تنخواہ لینے والے افراد کے ذہنی حالات پر بڑا دباؤ ڈال دیا ہے، خاص طور پر وہ افراد جو سالانہ آمدن کی حدود کے اندر آتے ہیں۔
اس نئی پالیسی کے تحت، فیملی ویزہ حاصل کرنے والے افراد کو سالانہ کم از کم 29 ہزار پاؤنڈز کی درآمد کی ضرورت ہے۔
یہ تبدیلی ان افراد کو متاثر کرتی ہے جو اس حد کے اندر تنخواہ کی درآمد حاصل نہیں کر پاتے، اور وہ اپنے معاشی وسائل کی ضمانت دینے کے بھی قابل نہیں ہوتے۔
ان نئی پالیسیوں پر عملدرآمد اپریل ۲۰۲۴ سے ہو جائے گا جس کی بنا پر اُن افراد کے لیے زیادہ مشکل ہے جو اپنے خاندان کو مختلف ملکوں میں چھوڑ کر اپنے پیشہ ورانہ مقاصد کے لیے انگلینڈ آنا چاہتے ہیں۔اپنے پیاروں سے دور رہ کر سالاہا سال محنت مزدوری کرنے والے افراد میں مایوسی کی لہر ڈور گئی ہے۔
مزیدپڑھیں:ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کا پی ٹی آئی کو جلسے کی اجازت دینے سے انکار
انفرادی طور پر اس وضع کا سامنا کرنا اور اپنے خاندان کے ساتھ رابطہ برقرار رکھنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے، خاص طور پر جب آپ اپنی بیوی اور بچوں کو مختلف ملکوں میں چھوڑ کر کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اس وقت کی زندگی بہت پیچیدہ اور تنہائی بھری ہوتی ہے، اور اس سے نمٹنا اور اپنی محنت کو جاری رکھنا ایک بڑا چیلنج بنتا ہے۔
برطانیہ کی اس نئی ویزہ پالسی کے خلاف ایک پٹیشین کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اِس آن لائن پیٹیشن کو حکومتی سطح تک پہنچانے کے لیے بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ آن لائن پٹیشین ایوان اعلی میں بیٹھے حکومتی عہدیداران کے فیصلوں سے ٹکرانے کی سکت رکھتی ہے یا نہیں۔