تحریر: علی شیر
ایک بات پاکستانی قوم کو آج تک سمجھ نہیں آئی کہ جب کرپشن کی بات کی جاتی ہے تو سارا ملبہ سیاستدانوں پر ڈالا جاتا ہے کہ وہ فنڈ ز اور قومی سرمایہ ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ بیرون ملک بھی بھیجتے ہیں۔ جسکا رونا دھونا ہم 1977 کے بعد سے تواتر سے سنتے چلے آرہےہیں۔ جب بیوروکریسی کے اثاثہ جات پر نظر ڈالی جاتی ہےیا انکا اپوائنٹمنٹ کے وقت سے لیکر بیس پچیس سال کی سروس کے دوران انکی جائیدادیں ہیں نے اور بنک بیلنس کا ریکارڈ کبھی دیکھنے کو ملتا ہے تو ہوش رب حقائق سامنے آتے ہیں۔جب انکی ذمی داریاں پوری کرنے پر نظر ڈالی جاتی ہے۔ تو ہر ایک ادارہ قریب الموت اور جانکنی کے عالم میں نظر آتا ہے۔ جسمیں کرپشن ایک ناسور کی طرح پھیلا ہوا لا علاج مریض کی پڑا ہوتا ہے۔ جس سے اسکے ورثاء بھی جان چھڑانے کی ناکام کوششوں میں لگے رہتےہیں۔ سوال کرپشن اور مالی بےقاعدگی کا نہیںسوال احساس ذمہ داری کا ہے۔ اور دوسروں پر اپنی غلاظت کا ملبہ ڈالنے کی بجائے اپنی گریبان میں جھانک کر دیکھنا بھی ہرایک فرد کا فرض ہےکہ جسکا کام ہے اسکو بہ احسن طریقے سے انجام دیں ۔ منافع بخش ادارے کیسے نقصان میں جا رہے ہیں۔ یہ ان اداروں کے سربراہوں اور ان اداروں میں کام کرنے والے اہلکاروں کی زمہ داری ہےکہ اپنے ادارے کو ملک و قوم کی امانت سمجھ کر اس کو سھنبالنے کی کوشش کریں۔ اسکے ۔متوازی بہت سے دوسرے پرائیویٹ سیکٹر میں ادارے منافع بخش طریقے سے چل رہےہیں۔ کیوں ۔۔ جنکو اتنے مواقع حاصل نہیں ہیں جتنے مواقع سرکاری اداروں کو حالانکہ وہ منافع میں چل رہے ہیں انکے کرتا دھرتا اس ادارے کو منافع میں چلانے کیلئے دن رات ایمانداری سے کام کرتے ھیں۔ جنکو وہ اپنا فرض سمجھتے ھیں ۔ مالکان انکو اپنا ادارہ کبھی نقصان میں چلنے نھیں دیتے۔ کیا سیاستدان کی یہ زمہ داری ھے کہ وہ پی آئی اے کے ڈسک پر بیٹھ کر ٹکٹ ایشو کرتا رہے۔ کیا سیاستدان کی یہ زمہ داری ہے کہ وہ۔پی آئی اے کے جھاز اڑائیں۔۔کیا وہ انجینئر کا سوٹ پہن کر جھاز کی مرمت کرائے۔ یا۔پائلٹ کی سیٹ سنبھالیں۔ ہر کام کیلئے معقول تجربہ کار لوگ تنخواہ کے رہے ہیں۔ اگر کبھی پی آئی اے میں سفر کرنے کیلئے ٹکٹ لینے جائیں تو پھلا جواب یہ ملتا ہے کہ سوری جگہ نہیں ہے۔ جبکہ کسی ایجنٹ سے رجوع کریں۔ تو ملتا ہے ۔ وہاں سے کمیشن۔۔۔ جو ملتا ہے۔ پی آئی اے ہو یا ریلوے انکا قبلہ درست کرنے کیلئے انکے ملازمیں کو نقصان اور نفع کا ذمہ دار تصور کیا جائیگا۔ کیونکہ انکی لا پرواہی کا نتیجہ کہ قومی و ملکی ادارے خسارے میں چل رہےہیں۔ جبکہ آج لعن طعن سیاستدانوں پر بھیجی جاتی ہے ۔ہم کب قومی احساس اور ملکی نقصان پر شرمندہ ہو کر اپنے گریبان میں دیکھنے کی کوشش کرینگے۔ اور خود کو ذمہ دار قرار دیکر سیاست اور سیاست دان کی گردان سے باہر نکلیں گے۔ہم نے کبھی نہیں سنا ہے کہ کسی ملک کے سرکاری ادارے نقصان میں چلنے کی وجہ سے فروخت کئے گئے ہوں اور ان نقصانات کرانے والوں کو بخش دیا ہو۔ جسکے وہ ذمی دارہیں۔ اور لوگوں نے سیاستدان کے دم کے ساتھ ٹین باندہ کر شور مچانا شروع کیا ہو۔ہم کب اپنی قومی ذمہ داریوں کا من حیث القوم احساس کرینگے۔ اگر یہ روش اسی طرح برقرار رکھا گیا۔ تو اس دن سے ڈریں کہ آنے والی نسلیں پاکستان کو اپنی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں کی وجہ سے پورا دوسروں کو ٹھیکے پر چلانے کیلئے دید ے۔ اور بالآخر اسی ملک کو جاگیر کی ٹینڈر دیکر برائے فروخت کا انٹرنیشنل مارکیٹ میں اشتہار دیدیں۔ قومیں اثاثہ جات بناتی ہیں۔ انکو نقصان پہنچانے والوں کو کرسی پر براجمان نہیں انکو عبرت کا نشان بناتی ہیں۔ کبھی کسی غیر ذمہ دار اور مفاد پرستوں کو اپنا دہیرو یا قائدبناتی ہیں ۔