هفته,  27 جولائی 2024ء
پاکستانی قوم آنے والے عام انتخابات سے کافی حد تک لاتعلق دکھائی دیتی ہے۔

خلاصہ کلام
داؤد درانی
پاکستانی معیشت ایک خزاں رسیدہ باغ
پاکستان کی موجودہ معاشی حالت اس خزاں رسیدہ باغ کی سی ہے جس پر موسم بہار آنے کی بظاہر کوئی امید نظر نہیں آ رہی ایک زمانہ تھا کہ پاکستان نے جرمنی کو قرضہ دیا تھا اسی طرح پاکستان کی معاشی پالیسی اپنا کر جنوبی کوریا کی معیشت نے زبردست ترقی حاصل کی۔

پاکستان وہ ملک تھا کہ جس کے ماہرین نے آج دنیا کی ایک بہترین ایئر لائن امارات ایئر لائن کی تشکیل میں متحدہ عرب امارات کی مدد کی لیکن پھر بدقسمتی سے پاکستان اپنے نااہل حکمرانوں کی وجہ سے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے جال میں پھنس گیا اور پاکستان نے اپنے معاشی مسائل کے حل کے لیے ورلڈ بینک اور خاص طور پر آئی ایم ایف سے بے دریغ قرضہ لینا شروع کردیا۔

آئی ایم ایف نے خاص طور پر پاکستان کو اپنے چنگل میں گھیرنے کے لیے شروع میں بڑی دریا دلی کا مظاہرہ کیا

لیکن جب پاکستان سر سے پاوں تک قرضوں میں ڈوب گیا تو آئی ایم ایف نے پاکستان کی معیشت کو خود کنٹرول کرنا شروع کردیا اور اب صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کے بجٹ کو ترتیب دینے میں پاکستانی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہوتا بلکہ پاکستان کا سارا معاشی پلان آئی ایم ایف ہی ترتیب دیتا ہے اور وہ ہی اسے چلاتا ہے۔

آئی ایم ایف کے حکم پر ملک میں بجلی اور گیس کی قیمتیں مقرر کی جاتی ہیں اسی طرح آئی ایم ایف ہی کے حکم پر ملک میں مختلف ٹیکس نافذ کیے جاتے ہیں اور اگر پاکستان کی حکومت اس پر کوئی اعتراض کرتی ہے تو آئی ایم ایف قرضہ نا دینے کی دھمکیاں دینے لگتی ہے اور چونکہ ہمارا ملک اس وقت آئی ایم ایف ہی کے پیسوں پر چل رہا ہے لہٰذا اگر آئی ایم ایف نے پیسے نہیں دیے تو ہم دیوالیہ ہو جائیں گے ۔

اس لیے ہمیں بلا چوں چرا ں آئی ایم ایف کی ہر شرط ماننی پڑتی ہے یہ بات سب جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف کسی بھی ملک کو اسکی معاشی ترقی کے لیے قرضہ نہیں دیتا بلکہ اسکا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی ملک کی معیشت کو اپنے کنٹرول میں لے کر اس ملک کو بڑی طاقتوں کا غلام بنا سکے تاکہ پھر بڑی طاقتیں اس خطے میں اپنی من مانی کے لیے اس ملک کو استعمال کرسکیں۔

پاکستان بھی چونکہ جغرافیائی طور پر ایک انتہائی اہم خطے میں واقع ہے اس لیے پاکستان کا کنٹرول بڑی طاقتوں کے لیے بہت ضروری ہے اس مقصد کے حصول کے لیے ان بڑی طاقتوں نے پاکستان میں ہمیشہ آمریت کی حوصلہ افزائی کی اور ملک میں طویل دور آمریت کی وجہ سے سہی معنوں میں جمہوریت قائم نا ہو سکی۔

صرف وہی سیاسی پارٹیاں مختلف ادوار میں بر سر اقتدار آئیں جنہیں پاکستان کی مضبوط اسٹبلشمینٹ کا کندھا ملتا رہا ان سیاسی پارٹیوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں رہی کہ پاکستان کو ایک آزاد جمہوری ملک بنایا جائے ان سیاستدانوں نے ناجائز پیسہ بنانے کے چکر میں ملکی معیشت کو تباہی سے دو چار کیا ۔

ہر دور میں ہر حکمران نے قوم کو دھوکہ دینے کے لیے ترقی کے نام پر آئی ایم ایف سے قرضے لیے اور اس قرض کی رقم سے ایک تو پچھلے قرضوں کی قسطیں بھاری سود کے ساتھ اداکیں اور باقی پیسہ اپنے غیر ملکی بینکوں میں جمع کیا۔

ان حالات میں جب ملک کی سیاسی پارٹیاں ٓنے والے انتخابات میں کامیابی کے لیے قوم کو یہ جھوٹے خواب دکھاتی ہیں کہ اگر ہم بر سر اقتدار آگئے تو یہ کردیں گے اور وہ کردینگے ایک بہت بڑے جھوٹ سے کم نہیں ہے۔

اس وقت ہم جس خوفناک معاشی بحران سے گزر رہے ہیں اس سے نکلنے کے لیے پاکستان کے عام لوگوں کو نہیں بلکہ پاکستان کی اشرافیہ کو بہت بڑی قربانی دینی پڑے گی جو بظاہر بہت مشکل دکھائی دیتی ہے کیونکہ شیر کے منہ کو جب خون لگ جائے تو اسے قابو کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

آج کل فیس بک پر ایک پوسٹ گردش کر رہی ہے کہ ایک کروڑ کی گاڑی میں سوار ہو کر اور کئی گارڈز کے جلوس میں ڈپٹی کمشنر صاحب بازار کا دورہ کرکے ریڑھی والے سے پوچھتے ہیں کہ تم ٹماٹر کیوں مہنگے بیچ رہے ہو؟

پاکستان کے حکمران،بیورو کریسی،عدلیہ اور بڑے بڑے فوجی جرنیل جس طرح کی مراعات لے رہے ہیں اگر اس میں کمی کر دی جائے تو ملکی معیشت بڑی تیزی سے ترقی کر سکتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟کون ہے جو ایسی قانون سازی کرے گا کہ جس سے ان طبقوں کے ناجائز مراعات کا خاتمہ ہو سکے گا کیونکہ یہ طبقات خود ہی ہمیشہ حکمران رہتے ہیں لہٰذا ان سے اس بات کی امید کیسے کی جا سکتی ہے کہ یہ لوگ اپنے ہی پیر پر کلہاڑی ماریں گے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف جب بھی پاکستان کو قرض دیتا ہے تو اسکا نزلہ غریب پر ہی گرتا ہے آئی ایم ایف کبھی بھی پاکستان کو یہ نہیں کہتی کہ اشرافیہ کے ان اللوں تللوں کو بھی کنٹرول کریں اور ملک میں غیر ترقیاتی اخراجات پر قابو پانے کی کوش کریں۔

آئی ایم ایف کا مطالبہ یہی ہوتا ہے کہ بجلی مہنگی کرو گیس مہنگی کرو اور غریبوں پر نت نئے ٹیکس عائد کرو پاکستان میں ان چند مخصوص طبقوں کے پاس اسقدر ناجائز دولت ہے کہ ملک میں جب مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے تو ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا جبکہ غریب آدمی بلبلانے لگتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستانی قوم آنے والے عام انتخابات سے کافی حد تک لاتعلق دکھائی دیتی ہے اور انہیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ ان انتخابات میں جو بھی جیتے گا وہ پاکستان کو مہنگائی،لاقانونیت اور بے روزگاری کی دلدل سے نکال نہیں سکتا اور وہ بھی اپنا دور اقتدار انہوں بہانوں میں گزار دے گا کہ کیا کریں پچھلی حکومت کی خراب پالیسیوں کی وجہ سے معیشت اسقدر خراب ہو چکی ہے کہ اسے ٹریک پر لانے میں بہت وقت لگے گا لہٰذا
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں۔

مزید خبریں

FOLLOW US

Copyright © 2024 Roshan Pakistan News