هفته,  27 جولائی 2024ء
ملزمان بے بس یاآئی پنجاب ڈاکٹر عثمان تحریر شہزاد انورملک

پولیس کا وقت بھی ضائع کیا گیا اور پولیس کے اندر موجود افسران اہلکاروں کو بربادی کی طرف گامزن بھی کیا گیا ہے بظاہر وجہ تو یہ ہی نظر آتی ہے کہ ان کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا ہے۔

یہ ہی وجہ ہے یہ لوگ بغیر احساس کے جذبے سے عاری ہو کر من مرضی کرتے ہیں لیکن یہ تصویر وہ منہ بولتا ثبوت ہے جس میں ایک پولیس آفیسر ملزمان کو اپنے بیڈ روم میں رکھنے پر مجبور ہے یہ تصویر ایک تھانے کی حدود میں موجود گھر کی ہے جہاں تھانے میں حوالات میں مناسب انتظام نا ہونے کی وجہ سے پولیس بسا اوقات ایسے ملزمان کو اپنی رہائش گاہ میں لے جاتے ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ چوبیس چوبیس گھنٹے ڈیوٹی کرنے والوں کو ایسے ملزمان کے کھانے پینے کا بھی انتظام کرنا پڑتا ہے اور دوسری طرف وزیر اعلی پنجاب جناب محسن نقوی صاحب اور سوشل میڈیا پر وائرل اور وڈیوز بناتے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان صاحب ہیں جو بظاہر پولیس اصلاحات میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش تو کر رہے ہیں لیکن یہ اصلاحات اپنی ذات کی حد تک محدود نظر آتی ہیں ان کو کیمرے کے آگے آنا بہت پسند ہے اپنی خود نمائی کا بے انتہا شوق تو ڈاکٹر صاحب محکمہ پولیس کو چھوڑ کر انسانیت کی خدمت کریں ۔

ڈاکٹر صاحب آپ کو خود معلوم ہونا چاہیے آپ ہی کی سربراہی میں آپ ہی کے ایک اہلکار نے راہ چلتے آپ کے متعلق فضولیات اور لغو الفاظ بولے آپ کو تو سمجھ جانا چاہیے تھا کہ کہاں کمی ہے ۔

لیکن بدقسمتی یہ ہے قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہر ادارے میں موجود کالی بھیڑوں کا کوئی تدارک نا ہوا ذرائع سے ملی تصویر میں دیکھا جا سکتا ہےکیسے ملزمان سردی میں زمین پر بیھٹے ہیں ایسے میں متعلقہ آفیسر ان ملزمان کو کھانا کھانا کھلانے کے لیے کرپشن کرے گا یا اپنی اس تنخواہ سے ان ملزمان پر اخراجات کرے گا جو کسی بھی لحاظ سے انتہائی کم ہے کیونکہ جو سہولیات باقی اداروں کو ملتی ہیں محکمہ پولیس کے ساتھ واقعی سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جاتا ہے ۔

اسقدر استعمال ہونے کے باوجود بھی اسی پولیس سے ہی چادر اور چار دیواری کا تقدس بھی پامال کروایا جاتا ہے اور فائدہ وہ لیتے ہیں جو حکومتوں میں آتے جاتے رہتے ہیں لیکن گالی صرف پولیس کو پڑتی ہے۔

وقت کی ضرورت ہے کے پولیس اصلاحات فوری بنیادوں پر کی جائیں ان کی ڈیوٹی کے اوقات باقی اداروں کی طرح آٹھ گھنٹے ہوں تاکہ یہ لوگ بھی سوشل میڈیا کی سرگرمیوں سے ہٹ کر اپنے گھر والوں کو ٹائم دے سکیں ۔

واضح رہے یہاں وطن عزیز میں جہاں عام لوگ ہائبرڈ وار سے متاثر تو ہوئے ہی ہیں نوجوان بے راہ روی کی طرف مائل دکھائی تو دیتے ہی ہیں اب پولیس کے افسران نوجوان بھی سوشل میڈیا سے متاثر

نظر آتے ہیں اس کی مثال سوشل میڈیا ٹولز پلیٹ فارمز تصاویر ویڈیوز وغیرہ وغیرہ موجود ہ حکومت کو چاہیے محکمہ پولیس کو ہر قسم کی سہولیات کے ساتھ مکمل اخراجات کا بجٹ بھی مہیا کرے ناکہ کہ پولیس اہلکار پیٹرول نا ملنے کا بھی شکوہ کرتے ہیں ایسے میں عوام الناس کی جان و مال کی کون حفاظت کرے گا۔

مزید خبریں

FOLLOW US

Copyright © 2024 Roshan Pakistan News