تحریر: عدیل آزاد
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ محض سیاست دان نہیں رہتیں بلکہ ایک علامت بن جاتی ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹوؒ بھی ایسی ہی ایک شخصیت تھیں جن کی زندگی اقتدار کے ایوانوں سے زیادہ جیل کی کوٹھڑیوں، جلاوطنی کے کرب اور عوامی جدوجہد سے عبارت ہے۔
بے نظیر بھٹو 21 جون 1953ء کو ایک سیاسی گھرانے میں پیدا ہوئیں، مگر ان کی اصل شناخت ان کا نام نہیں بلکہ ان کی جدوجہد بنی۔ ہارورڈ اور آکسفورڈ جیسے عالمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے کے باوجود انہوں نے اقتدار کے آرام دہ راستے کے بجائے عوامی سیاست کی کٹھن راہ کا انتخاب کیا۔ آکسفورڈ یونین کی صدارت سے لے کر پاکستان کے وزیراعظم ہاؤس تک، ان کا سفر بظاہر شاندار مگر درحقیقت انتہائی پرمشقت رہا۔
1979ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی عدالتی پھانسی نے نہ صرف ایک منتخب وزیراعظم کو خاموش کیا بلکہ بے نظیر بھٹو کو وقت سے پہلے سیاسی بلوغت عطا کر دی۔ ایک تعلیم یافتہ طالبہ یکایک آمرانہ ریاست کی قیدی بن گئی۔ جیل، نظر بندی، تنہائی اور اذیت—یہ سب ان کے لیے صرف ذاتی المیے نہیں تھے بلکہ پاکستان میں جمہوریت کی قیمت تھے، جو انہوں نے اپنے وجود سے ادا کی۔
ضیاء الحق کے دور میں جب سیاست جرم اور اختلاف غداری سمجھا جاتا تھا، بے نظیر بھٹو آمریت کے سامنے ڈٹ کر کھڑی رہیں۔ جلاوطنی کے باوجود ان کی آواز خاموش نہ ہو سکی۔ عالمی فورمز پر انہوں نے پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر پیش کیا جو آمریت کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے مگر جس کے عوام جمہوریت کے لیے بے تاب ہیں۔
1988ء میں وزیراعظم بننا تاریخ ساز لمحہ تھا، مگر یہ منصب ان کے لیے اختیار سے زیادہ آزمائش بن کر آیا۔ ان کی حکومت کو شروع دن سے عدم اعتماد، اسٹیبلشمنٹ کی سرد مہری اور سیاسی سازشوں کا سامنا رہا۔ دونوں بار ان کی حکومتیں برطرف ہوئیں، مگر اس کے باوجود انہوں نے پارلیمانی نظام، اظہارِ رائے کی آزادی اور خواتین کی شمولیت کو سیاسی دھارے میں جگہ دینے کی کوشش کی۔
یہ درست ہے کہ ان کے ادوار پر کرپشن اور بدانتظامی کے الزامات لگے، مگر یہ سوال آج بھی برقرار ہے کہ کیا یہ الزامات کبھی غیر جانبدار احتساب کے ذریعے ثابت ہو سکے؟ یا یہ الزامات بھی اسی سیاسی انجینئرنگ کا حصہ تھے جو پاکستان میں عوامی قیادت کے راستے میں ہمیشہ حائل رہی؟
2007ء میں ان کی وطن واپسی محض سیاسی واپسی نہیں تھی بلکہ ایک شعوری خطرہ مول لینے کا فیصلہ تھا۔ کراچی میں خون میں نہایا استقبال اور پھر راولپنڈی میں ان کی شہادت، اس بات کا ثبوت ہے کہ بے نظیر بھٹو نے اقتدار کے لیے نہیں بلکہ نظریے کے لیے سیاست کی۔ وہ جانتی تھیں کہ واپسی کی قیمت کیا ہو سکتی ہے، پھر بھی واپس آئیں۔
بے نظیر بھٹوؒ کا سب سے بڑا جرم شاید یہی تھا کہ وہ جمہوریت پر یقین رکھتی تھیں، اور پاکستان میں جمہوریت پر یقین رکھنا ہمیشہ ایک خطرناک عمل رہا ہے۔
آج جب سیاست مفاہمت، مصلحت اور ذاتی مفاد کے گرد گھومتی ہے، بے نظیر بھٹو کی زندگی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ سیاست کبھی قربانی مانگتی تھی۔
وہ چلی گئیں، مگر ان کا جملہ آج بھی زندہ ہے:
“جمہوریت بہترین انتقام ہے”
اور شاید پاکستان کی سیاست کو آج بھی اسی انتقام کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔











