جمعرات,  25 دسمبر 2025ء
عمران خان، اسٹیبلشمنٹ اور سیاست کی نئی کروٹ
عمران خان، اسٹیبلشمنٹ اور سیاست کی نئی کروٹ

تحریر: عدیل آزاد

عمران خان کی حکومت کی آئینی برطرفی کے بعد میرا نقطۂ نظر ابتدا ہی سے واضح رہا ہے کہ عمران خان کی سیاسی واپسی کسی عوامی تحریک کا نتیجہ نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے بعض حلقوں کی ناقص منصوبہ بندی اور غیر ضروری سخت اقدامات کی پیداوار ہے۔ جن پالیسیوں کا مقصد عمران خان کو سیاسی طور پر غیر مؤثر بنانا تھا، وہی بالآخر ان کے لیے نئی سیاسی زندگی کا ذریعہ بن گئیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے یہ دعویٰ کہ اس نے 8 فروری 2024 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی 180 نشستیں حاصل کیں، دراصل اسی مبالغہ آمیز بیانیے کا تسلسل ہے جو پارٹی برسوں سے اختیار کیے ہوئے ہے۔ حقیقت اس سے کہیں مختلف ہو سکتی ہے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ پی ٹی آئی نے دیگر جماعتوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھائی ہو، مگر 180 نشستوں کا دعویٰ زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اگر واقعی اسے اپنی جیتی ہوئی نشستوں سے محروم کیا گیا تو یہ بھی انہی عناصر کی نادانی کا نتیجہ ہوگا جن کی سابقہ غلطیوں نے پی ٹی آئی کو غیر متوقع مقبولیت عطا کی۔

یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ فروری 2024 کے انتخابات مکمل طور پر شفاف نہیں تھے، تاہم اس بنیاد پر موجودہ حکومت کو مکمل طور پر ناجائز قرار دے کر عمران خان کو دوبارہ اقتدار سونپنے کا مطالبہ ایک خطرناک نظیر قائم کرے گا۔ اگر یہی اصول اپنایا جائے تو پھر 2018 کے انتخابات کو بھی اسی کسوٹی پر پرکھنا ہوگا، جو خود سنگین اعتراضات اور دھاندلی کے الزامات کی زد میں تھے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی عمران خان کی حکومت بھی اخلاقی اور جمہوری سوالات سے مبرا نہیں تھی۔

اسی تناظر میں یہ سوال بھی ناگزیر ہے کہ اگر فروری 2024 میں واقعی فوجی قیادت کا مقصد پی ٹی آئی کو مکمل طور پر شکست دینا تھا تو خیبر پختونخوا میں اسے واضح اکثریت کیسے حاصل ہوئی؟ یہ حقیقت خود اس بیانیے کی نفی کرتی ہے کہ پورا انتخابی عمل یک طرفہ طور پر پی ٹی آئی کے خلاف ڈیزائن کیا گیا تھا۔

میرا ماننا ہے کہ اگر اپریل 2022 میں عمران خان کی آئینی برطرفی کے فوراً بعد، زیادہ سے زیادہ تین ماہ کے اندر شفاف انتخابات کرا دیے جاتے تو نہ عمران خان کو ہمدردی کی ایسی لہر میسر آتی اور نہ پی ٹی آئی کسی بڑی سیاسی قوت کے طور پر ابھرتی۔ مگر اس کے برعکس، بعض غیر سیاسی اور سخت گیر فیصلوں نے عمران خان کو مظلوم بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مسئلہ عمران خان کی بے گناہی کا نہیں۔ عمران خان نے بطور وزیرِ اعظم متعدد قوانین کی خلاف ورزی کی اور اختیارات کا غلط استعمال کیا۔ تاہم، ان کے خلاف مقدمات کی نوعیت، گرفتاریوں کا طریقہ اور سیاسی کارکنوں کے ساتھ روا رکھا گیا سلوک ایسا تھا جس نے انصاف کے بجائے انتقام کا تاثر دیا۔ اس طرزِ عمل نے پی ٹی آئی کے بیانیے کو تقویت دی۔

عمران خان کا عملی کردار ان دعوؤں کے برعکس رہا جو وہ سیاست میں آنے سے قبل کیا کرتے تھے۔ ملک ریاض جیسے متنازع اور بدنام شخص سے مالی فوائد اور قیمتی تحائف لے کر اسے غیر قانونی رعایتیں دینا، کسی بھی صورت میں دیانت داری کے دعوے سے مطابقت نہیں رکھتا۔

اسی طرح برطانوی حکام کی جانب سے ضبط کی گئی 19 کروڑ پاؤنڈ کی رقم، جو پاکستان کو واپس ملنی تھی، اسے بالواسطہ طور پر ملک ریاض ہی کے فائدے میں استعمال کرنا ایک سنگین معاملہ تھا۔ توشہ خانے کے قیمتی تحائف کو بازار میں فروخت کر کے چند کروڑ روپے کمانا بھی ایک ایسی حرکت تھی جس نے ریاستِ پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔

یہ دلیل کہ دیگر حکمرانوں نے بھی ماضی میں توشہ خانے سے تحائف لیے، محض ایک سطحی جواز ہے۔ فرق یہ ہے کہ عمران خان نے خود کو صادق و امین قرار دیا، اخلاقی برتری کا دعویٰ کیا اور مخالفین کو کرپشن کی علامت بنا کر پیش کیا۔ جب کوئی سیاست دان خود کو معیارِ اخلاق بنائے تو اس کے اعمال بھی اسی معیار کے مطابق ہونے چاہئیں۔

بین الاقوامی سطح پر یہ سمجھنا بھی سادہ لوحی ہوگی کہ امریکہ اور صیہونی لابی عمران خان کو مکمل طور پر نظرانداز کر چکی ہے۔ درحقیقت، غزہ اور ایران سے متعلق بڑے اسٹریٹجک اہداف کے حصول کے لیے عمران خان کو وقتی طور پر پس منظر میں رکھا گیا ہے، جبکہ پاکستان کی موجودہ حکومت اور عسکری قیادت کے ساتھ عملی تعاون کو ترجیح دی جا رہی ہے۔

امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان غزہ میں کسی نہ کسی صورت کردار ادا کرے، تاہم پاکستان کا مؤقف واضح ہے کہ وہ فلسطینیوں یا حماس کے خلاف کسی فوجی کارروائی کا حصہ نہیں بنے گا۔ پاکستان اس وقت ایک نہایت نازک مرحلے سے گزر رہا ہے جہاں وقت حاصل کرنا اور مسلم دنیا کے ساتھ مل کر کوئی متوازن راستہ نکالنا ناگزیر ہے۔

یہ صورتحال پاکستان کے لیے نہایت پیچیدہ ہے۔ داخلی عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے مختلف عالمی اور مقامی عوامل استعمال ہو سکتے ہیں، جن میں سیاسی دباؤ، مالیاتی ادارے اور مخصوص سیاسی چہرے شامل ہیں۔ ایسے میں دانشمندی، توازن اور اصولی مؤقف ہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔

جمعرات، 25 دسمبر 2025

مزید خبریں