هفته,  13 دسمبر 2025ء
بات بالی ووڈ کی فلم دھورندر سے شروع ہوئی!
کالم میں اور میرا دوست

میں اور میرا دوست اکثر چائے پر دنیا کے بڑے مسئلوں پر ایسے گفتگو کرتے ہیں جیسے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل ہمارے اشارے کی منتظر ہو۔ اُس دن بات بالی ووڈ کی فلم دھورندر سے شروع ہوئی۔

جس پر کہا جا رہا تھا کہ اسے پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے ڈیڑھ سو کروڑ کی خطیر رقم لگا کر بنایا گیا ہے۔ اُس دن بھی بات وہیں سے شروع ہوئی جہاں سے آج کل ہر بحث شروع ہو جاتی ہے: بالی ووڈ کی فلم دھورندر۔ میرے دوست نے موبائل میز پر رکھتے ہوئے کہا، “یار، سنا ہے ڈیڑھ سو کروڑ لگا کر فلم بنائی تھی پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے، اور انجام یہ ہوا کہ پورا انڈیا رحمان ڈکیت اور ایس پی اسلم چودھری کا فین بن گیا۔” میں نے ہنستے ہوئے چائے کا گھونٹ لیا اور کہا، “بھائی، اسے کہتے ہیں بیانیے کی بددعائی۔”

بات واقعی غور طلب ہے۔ فلم سازوں نے سوچا ہوگا کہ بڑے بجٹ، جارحانہ مکالموں اور مخصوص زاویوں سے فلم بنا کر عوامی رائے کو اپنے حق میں موڑ لیں گے۔ اسکرپٹ میں ہیرو بھی موجود تھا، باقاعدہ، وردی میں، مشن پر نکلا ہوا، سب کچھ۔ مگر ہوا یہ کہ عوام نے اس ہیرو کو ہیرو ماننے سے ہی انکار کر دیا۔ لوگ کہانی کے اُس حصے پر رک گئے جہاں انسانیت، رشتہ، دوستی اور ایک خاص ثقافتی وقار جھلکتا تھا۔

میرے دوست نے کہا، “تم نے غور کیا؟ کسی کو یاد ہی نہیں رہا کہ فلم میں ایک ہیرو بھی تھا۔” میں نے جواب دیا، “ہاں، کیونکہ وہ ہیرو مصنوعی تھا، جبکہ رحمان ڈکیت اور ایس پی اسلم چودھری حقیقی لگتے تھے، چاہے فلمی کہانی ہی کیوں نہ ہو۔” آج کے ناظرین کارٹون ولن اور پلاسٹک ہیرو قبول نہیں کرتے۔ وہ پیچیدگی، تضاد اور سچ چاہتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر نظر ڈالیں تو ہر دوسری پوسٹ میں بلوچی ڈانس، بلوچی موسیقی اور بلوچی اندازِ زندگی چھایا ہوا ہے۔ ریلز، میمز، تبصرے، سب ایک ہی سمت جا رہے ہیں۔ یہ وہی ثقافت ہے جسے برسوں نظرانداز کیا گیا، مگر اب ایک فلم کے ذریعے، غیر ارادی طور پر، وہ مرکزی دھارے میں آ گئی۔ میرے دوست نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا، “لگتا ہے ڈیڑھ سو کروڑ کا سب سے بڑا فائدہ بلوچی ثقافت کو ہوا ہے۔”

اصل مسئلہ یہ ہے کہ بالی ووڈ ابھی تک یہ سمجھنے کو تیار نہیں کہ زمانہ بدل چکا ہے۔ اب فلم صرف سینما ہال تک محدود نہیں۔ ہر سین، ہر مکالمہ، ہر فریم سوشل میڈیا کی عدالت میں پیش ہوتا ہے۔ وہاں فیصلہ پروڈیوسر نہیں، عوام کرتے ہیں۔ اگر نیت میں تعصب ہو تو کیمرہ بھی گواہی دینے سے انکار کر دیتا ہے۔

میں نے دوست سے کہا، “یہ صرف پاکستان یا انڈیا کا معاملہ نہیں، یہ فن اور پروپیگنڈے کی جنگ ہے۔” جب فن کو ریاستی بیانیے کا ہتھیار بنایا جائے تو وہ اکثر الٹا وار کرتا ہے۔ تاریخ بھری پڑی ہے ایسی مثالوں سے جہاں فلم، ادب یا موسیقی نے طاقتور بیانیے کو کمزور کر دیا۔

میرے دوست نے ایک اور دلچسپ نکتہ اٹھایا۔ اُس نے کہا، “دیکھو، نفرت بیچنے کا زمانہ اب خسارے کا سودا بنتا جا رہا ہے۔ لوگ محبت، ربط اور ثقافت میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔” واقعی، رحمان ڈکیت اور ایس پی اسلم چودھری کی مقبولیت اس بات کی علامت ہے کہ عوام سیاہ اور سفید کہانیوں سے آگے نکل چکے ہیں۔ وہ ہر کردار کو ایک انسان کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں، نہ کہ کسی قوم کی علامت کے طور پر۔

بلوچی ڈانس کا وائرل ہونا بھی محض ایک رجحان نہیں، بلکہ ایک پیغام ہے۔ یہ پیغام ہے کہ ثقافت سرحدوں سے آزاد ہوتی ہے۔ آپ اسے فلم میں منفی سیاق میں دکھائیں یا مثبت، اگر اس میں جان ہے تو وہ خود بول اٹھتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج نوجوان اس ڈانس کو فخر سے اپنائے ہوئے ہیں، بغیر یہ سوچے کہ فلم ساز کیا دکھانا چاہتے تھے۔

بات کے آخر میں میرے دوست نے وہ جملہ کہا جو شاید اس پورے معاملے کا خلاصہ ہے: “سالا اس سال انڈیا کی گڈ لک ہی خراب رہی ہے۔” میں نے مسکرا کر کہا، “یا شاید یہ گڈ لک نہیں، بلکہ آئینہ ہے۔ آئینہ جو دکھا رہا ہے کہ زبردستی کا بیانیہ اب نہیں چلتا۔”

یہ کالم کسی ایک فلم کے خلاف نہیں، بلکہ اس سوچ کے خلاف ہے جو سمجھتی ہے کہ کروڑوں روپے خرچ کر کے سچ کو موڑا جا سکتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ جب آپ کسی اور کو بدنام کرنے نکلتے ہیں تو اکثر اپنی کمزوری عیاں ہو جاتی ہے۔ اور جب آپ کسی ثقافت کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ رقص بن کر دنیا کے سامنے آ جاتی ہے۔

میں اور میرا دوست چائے ختم کر کے اٹھے تو احساس یہی تھا کہ اصل کامیابی یا ناکامی باکس آفس پر نہیں، بلکہ عوام کے دلوں میں لکھی جاتی ہے۔ اور اس بار دلوں نے وہ فیصلہ دیا جس کی شاید کسی کو توقع نہ تھی

مزید خبریں