تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
سینیٹ کے حالیہ اجلاس میں گرفتار، نظربند اور زیرِ حراست افراد سے تفتیش سے متعلق بل، فیٹل ایکسیڈنٹس (ترمیمی) بل 2024 اور لمیٹڈ لائیبیلیٹی پارٹنرشپ (ترمیمی) بل متفقہ طور پر منظور ہوئے۔ یہ اتفاقِ رائے اس بات کی علامت ہے کہ پارلیمان بعض بنیادی قانونی اصلاحات پر متحد دکھائی دیتی ہے، خاص طور پر وہ اصلاحات جو انسانی حقوق، انصاف کے تقاضوں اور عوام کے روزمرہ مسائل سے جڑی ہیں۔
یہ قانون سازی اچانک پیدا نہیں ہوئی۔ اس کے پیچھے ایک طویل تاریخی پس منظر اور عدالتی مباحث موجود ہیں، جنہوں نے ان اصلاحات کا راستہ ہموار کیا۔ گرفتار اور زیرِ حراست افراد سے تفتیش کے بارے میں یہ بل ایک اہم پیش رفت ہے۔ سینیٹر فاروق ایچ نائیک کا پیش کردہ بل بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے ایک اہم قدم ہے۔ پاکستان میں گرفتاری کے وقت تحریری وجوہات نہ بتانے، وکیل تک رسائی محدود رکھنے اور اہلِ خانہ کو ملاقات کی اجازت نہ دینے جیسی شکایات ہمیشہ سے زیرِ بحث رہی ہیں۔ یہ بل ان تمام کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش ہے۔ اب قانون واضح طور پر بتاتا ہے کہ گرفتاری کی تحریری وجوہات بتانا لازم ہوگا، زیر حراست فرد کو وکیل کی مدد حاصل ہوگی، اہلِ خانہ سے ملاقات اور ضروری دوائیں فراہم کی جائیں گی، خلاف ورزی کرنے والے پولیس افسران پر جرمانہ ہوگا۔ یہ اصلاحات دراصل آئین کے آرٹیکل 10 اور 10-A کے تقاضوں کی تکمیل بھی ہیں، جن کا مقصد منصفانہ ٹرائل اور انسانی احترام ہے۔
دوسرا بل فیٹل ایکسیڈنٹس (ترمیمی) بل 2024 ہے۔ 1861 سے پہلے برصغیر میں حادثاتی موت کے مقدمات سے متعلق کوئی واضح نظام موجود نہیں تھا۔ 1855 میں Fatal Accidents Act برطانوی دور میں نافذ ہوا تاکہ ہرجانے کے مقدمات کا طریقہ کار طے کیا جا سکے۔ مگر یہ قانون وقت کے ساتھ غیر مؤثر ہوتا گیا۔ طویل مقدمے بازی، اپیل کے واضح حق کا فقدان، معاوضے کا غیر شفاف نظام اور سب سے بڑھ کر فیصلہ نہ ہونے کی وجہ سے متوفی کے ورثا شدید مالی مشکلات کا سامنا کرتے تھے۔ 2011 میں سپریم کورٹ کے ایک اہم فیصلے (سول اپیلز 175–177/2005) نے اس قانون کی خامیوں کی نشاندہی کی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنی تفصیلی نوٹ میں کہا کہ ورثا کو فوری مالی مدد ملنی چاہیے، مقدمات کے فیصلے جلد ہوں، عبوری معاوضہ لازمی ہونا چاہیے، اپیل کا واضح حق موجود ہونا چاہیے، فیصلے کے بعد فوری طور پر اس کی تعمیل یقینی بنائی جائے۔ ان عدالتی ہدایات کے بعد لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے 2013 میں اصلاحات کا مسودہ تیار کیا، جس کی روشنی میں نیا ترمیمی بل سامنے آیا۔ اس بل کی کئی نمایاں خصوصیات ہیں جن میں سرفہرست حادثات سے متعلق مقدمات 6 ماہ میں نمٹانے کی پابندی ہوگی، ورثا کیلئے عبوری معاوضے کی فراہمی ہوگی، اگر ملزم معاوضہ ادا نہ کرے تو عدالت دفاع کا حق ختم کر کے مقدمہ فیصلے تک لے جائے، اپیل کا واضح حق قائم کیا گیا ہے، فیصلے کے فوراً بعد عمل درآمد شروع ہونا ضروری ہے اور الگ سے ایکزیکیوشن کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یہ تبدیلیاں عام شہری کو اس پیچیدہ قانونی نظام سے نجات دینے میں مددگار ثابت ہوں گی جو دہائیوں سے انصاف کی راہ میں رکاوٹ رہا ہے۔
دیگر بل اور کمیٹیوں کے سپرد ہونے والے مسودے بھی سینیٹ میں پیش کیے گئے، سینیٹ نے کئی اہم بل قائمہ کمیٹیوں کو بھجوائے ہیں، جن میں پاکستان سائیکالوجیکل کونسل بل، انسداد الیکٹرانک کرائمز ترمیمی بل، الیکٹرانک نیکوٹین ڈلیوری سسٹمز ریگولیشن بل، یونیورسٹیوں میں مستحق افراد کے لیے خصوصی نشستیں بھی شامل ہیں۔ یہ تمام بل سماجی، تعلیمی اور اخلاقی شعبوں کو متاثر کرتے ہیں اور آئندہ مہینوں میں ان پر پیش رفت ملک کے پالیسی ڈھانچے کو مزید بدل سکتی ہے۔
اسی طرح پاکستان اینیمل سائنس کونسل بل مشترکہ اجلاس کو بھیج دیا گیا، جب کہ بیروزگاری پر قابو پانے سے متعلق قرارداد بھی متعلقہ کمیٹی کے سپرد کر دی گئی۔
پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں اکثر اوقات اہم بلوں کو سیاسی تقسیم کی نذر ہوتے دیکھا گیا۔ مگر ان تین بلوں کی متفقہ منظوری سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی حقوق، حادثاتی موت کے مقدمات میں اصلاح، معاشی سرگرمیوں میں شفافیت جیسے معاملات سیاست سے بالاتر ہو سکتے ہیں۔
فیٹل ایکسیڈنٹس ایکٹ کی 169 سال پرانی ساخت اب بدل رہی ہے اور گرفتار افراد سے متعلق قوانین پہلی بار شہری حقوق کو بنیادی حیثیت دے رہے ہیں۔ اس سے عدالتی نظام پر بھی مثبت دباؤ پڑے گا اور عوام کا قانونی عمل پر اعتماد بڑھے گا۔
اس قانون سازی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پارلیمان اگر سنجیدگی دکھائے تو ایسے قوانین نہ صرف فوری ریلیف دیتے ہیں بلکہ طویل المیعاد اصلاحات کا آغاز بھی بن جاتے ہیں۔ گرفتار افراد کے حقوق اور حادثاتی اموات کے مقدمات جیسے حساس موضوعات پر قانون سازی معاشرے کی اخلاقی سمت کا تعین کرتی ہے۔ جلد فیصلے، شفافیت، اپیل کا حق، اور ورثا کے لیے فوری معاونت یہ وہ ستون ہیں جن پر ایک منصفانہ معاشرہ کھڑا ہوتا ہے۔ اگر یہ قوانین مؤثر طریقے سے نافذ کیے گئے تو یہ ہماری قانونی تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوں گے۔











