(05 دسمبر یوم وفات پر خصوصی تحریر)
تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
اردو ادب کی ترقی پسند روایت جب اپنے عروج پر تھی تو اسی دور میں ایک منفرد لہجے کا شاعر سامنے آیا۔ اسرار الحق مجاز، جنہیں دنیا مجاز لکھنوی کے نام سے جانتی ہے، 1 اکتوبر 1911 میں رودولی ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوئے۔ ان کا ادبی سفر نہ صرف لکھنؤ کی تہذیب سے جڑا ہے بلکہ اس پورے دور کے سیاسی اور سماجی پس منظر کو بھی اپنے ساتھ سمیٹتا ہے۔ لکھنؤ میں تعلیم کے دوران انھیں شہر کی فضا، چلن اور ادبی رنگ ایسا بھایا کہ تخلص کے ساتھ ہی اسے اپنا لیا۔ مجاز لکھنوی دراصل لکھنؤ کی تہذیبی نرمی اور ان کے اپنے رومانوی مزاج کا حسین امتزاج بن گیا۔
1930کی دہائی ہندوستان کی سیاسی بیداری، آزادی کی تحریک اور سماجی شعور کا دور تھا۔ ترقی پسند تحریک نے ادب کو درباروں اور عشقیہ غزلوں کی تنگ گلیوں سے نکال کر سماجی جدوجہد کے میدان میں کھڑا کیا۔ مجاز اسی فضا کے شاعر تھے۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ تھے جہاں نئی سوچ، جدید شعور اور سیاسی سرگرمیاں طالب علموں کے ذہنوں کو نیا رخ دیتی تھیں۔ یہی ماحول مجاز کی شاعری کا فکری ڈھانچہ بن گیا۔
مجازؔ لکھنوی کی مختصر زندگی کا خاصہ ان کی شاعری تھی۔ ان کی سب سے بہترین نظم’آوارہ‘ ہے، جس کے چند بند 1953میں بنی فلم ’ٹھوکر‘ میں گلوکار طلعت محمود کی آواز میں کافی مشہور ہوئے:
’’اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں‘‘
یہ شہر کی رات میں ناشادو ناکارہ پھروں
جگمگاتی دوڑتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
غیر کی بستی ہے کب تک در بدر مارا پھروں
1936میں دہلی ریڈیو اسٹیشن پر میگزین آواز کے پہلے مدیر کے طور پر مجاز نے ایک نئی روایت ڈالی۔ بعد ازاں بمبئی انفارمیشن، لکھنؤ کے رسائل نیا ادب اور پرچم، اور پھر دہلی کی ہارڈنگ لائبریری نے انہیں فکری وسعت دی۔ وہ صرف شاعر نہیں تھے، ادبی فضا کے سرگرم رکن بھی تھے۔ ترقی پسند مصنفین کی انجمن میں ان کا فعال کردار ان کی سوچ کی سمت کا واضح اظہار تھا۔
مجاز لکھنوی کی شاعری میں رومان، بغاوت اور داخلی کرب کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ان کی شاعری میں ایک عجیب کشش ہے۔ رومانوی نرمی بھی ہے، شہری زندگی کا کرب بھی اور سماجی بے چینی بھی۔ ان کے ہاں جذبات کی شدت اور لہجے کی موسیقیت ایک ساتھ چلتی ہے۔
ان کی مشہور نظم “آوارہ” اردو شاعری میں شہری تنہائی، بیزاری اور سرگردانی کا ایک علامتی بیانیہ ہے۔ رات کی روشنیوں میں ایک حساس فرد کا بے مقصد بھٹکنا دراصل اس اجتماعی ذہنی کیفیت کا اظہار ہے جو جدید شہری تہذیب نے پیدا کی۔ طلعت محمود نے جب اس نظم کے بند گائے تو یہ صرف ایک نظم نہیں رہی، ایک نسل کا ترنم بن گئی۔
اسی طرح بچوں کے لیے نظم “ریل” میں ایک الگ دنیا ہے۔ اس میں حیرت، معصومیت، رفتار اور موسیقیت مل کر ایسا منظر بناتے ہیں جو بچوں کے ساتھ بڑوں کو بھی اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ یہ نظم مجاز لکھنوی کی تخلیقی وسعت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ محض ترقی پسند نعروں کے شاعر نہیں تھے، بلکہ زبان کو شاعرانہ جادو میں ڈھالنے کا ہنر بھی رکھتے تھے۔
مجاز کا اسلوب ان کی شخصیت کی طرح روشن اور بے باک ہے۔ ان کی زبان نرم لیکن پوری توانائی کے ساتھ چلتی ہے۔ وہ استعارے اور علامتوں کے ذریعے جدید زندگی کے مسائل سامنے لاتے ہیں۔ ان کے ہاں غم ذات بھی ہے اور غم دوراں بھی۔ ان کی شاعری میں رومانی شکستہ دلی بھی ہے اور سماجی غیر اطمینانی بھی۔ اسی امتزاج نے انہیں فراق، جوش اور فیض کے درمیان ایک الگ مقام دیا۔
مجازلکھنوی حساس تھے، جذباتی تھے اور زندگی سے ٹوٹ کر محبت کرنے والے تھے۔ یہی شدت کئی بار انہیں اندر سے کمزور بھی کرتی رہی۔ لکھنؤ کے ایک مشاعرے کے بعد ان کی زندگی کا چراغ اچانک بجھ گیا۔ 5 دسمبر 1955 کو وہ محض 44 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ مگر ان کا فن آج بھی زندہ ہے۔
مجاز لکھنوی نے اردو کو ایک ایسا لہجہ دیا جو رومان اور احتجاج دونوں کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ ترقی پسند تحریک کی ادبی تاریخ ان کے بغیر نامکمل ہے۔ ان کے نام پر 2008 میں جاری ہونے والا ڈاک ٹکٹ اس بات کا اعتراف ہے کہ وہ محض شاعر ہی نہیں بلکہ ایک تہذیبی علامت بھی تھے۔ مجاز لکھنوی کا نام اردو شاعری میں اس لیے روشن ہے کہ انہوں نے انسان کے اندر کے کرب، خواب اور شکستہ دل کی موسیقیت کو شہر کی بے رحم فضا میں یوں رکھا کہ یہ سب ایک اجتماعی تجربہ بن گیا۔ ان کی شاعری آج بھی پڑھنے والے کو ایک خاموش سحر میں لے جاتی ہے۔
نمونہ کلام
نیم شب کی خامشی میں زیرلب گاتی ہوئی
جیسے موجوں کا ترنم جیسے جل پریوں کے گیت
ایک اک لے میں ہزاروں زمزمے گاتی ہوئی
جستجو میں منزل مقصود کی دیوانہ وار
اپنا سردھنتی، فضا میں بال بکھراتی ہوئی
الغرض دوڑتی چلی جاتی ہے بے خوف و خطر
شاعر آتش نفس کا خون کھولاتی ہوئی











