منگل,  02 دسمبر 2025ء
استاد دامن: پنجابی زبان کا فی البدیہہ شاعر

(۳ دسمبر یوم وفات پر خصوصی تحریر)

تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

لاہور کی گلیوں میں پلنے والے چراغ دین دامن نے اپنی جوانی کا بیشتر حصہ اسی شہر کے ہنگاموں میں گزارا۔ گھر کا ماحول سادہ تھا۔ والد درزی تھے اور دامن نے بھی کم عمری میں سلائی کا ہنر اپنا لیا۔ یہی سادگی، یہی محنت اور یہی شہر کی مٹی بعد میں ان کی پوری شاعری کی شناخت بنی۔
چوک متی سے باغبانپورہ تک کا سفر صرف رہائش کی تبدیلی نہ تھا۔ اس نے ان کے سامنے شہر کے مختلف رنگ کھول کر رکھ دیے۔ یہی مشاہدہ آگے چل کر ان کے لہجے میں وہ بے ساختگی پیدا کرتا ہے جس نے انہیں عوام کا شاعر بنا دیا۔
قیام پاکستان کے ہنگامے ان کے لیے شدید آزمائش ثابت ہوئے۔ دکان لٹ گئی، کتابیں جل گئیں، ہیر کا مسودہ خاک میں مل گیا۔ لیکن یہ وہ لمحہ تھا جس نے دامن کو سر جھکانے کے بجائے اپنی یادداشت پر بھروسا کرنا سکھایا۔ یہی ضد بعد میں ان کی فنکارانہ شخصیت کی ایک علامت بن کر سامنے آئی۔
استاد دامن کی اصل پہچان پنجابی شاعری ہے۔ وہ لوک رنگ، طنز، سیاسی شعور اور بے ساختہ گوئی کے شاعر تھے۔ عام آدمی کی روزمرہ زبان ان کا اوزار تھی اور اسی زبان میں وہ بڑے سوال اٹھاتے تھے۔ ظلم، ناانصافی، معاشی ناہمواری اور سیاسی ڈھونگ سب کچھ ان کی نظموں میں کھل کر بیان ہوا۔
میاں افتخارالدین کی زیرِ صدارت لاہور میونسپل کمیٹی کے اجلاس میں پڑھی گئی نظم نے انہیں شہر میں پہچان بخشی۔ اس کے بعد وہ سیاسی جلسوں کا حصہ بنے اور پھر پورے پنجاب میں ان کے اشعار گونجنے لگے۔ ان کے الفاظ سادہ ہوتے تھے، لیکن ان کے پیچھے زندگی کا گہرا تجربہ بولا کرتا تھا۔
فی البدیہہ گوئی ان کی وہ صلاحیت تھی جس نے بڑے بڑے مشاعروں میں حاضرین کو حیران کیا۔ دہلی کے ایک مشاعرے میں کہی گئی نظم سن کر پنڈت نہرو کا ان سے محبت بھرپور اصرار بھی انہی لمحوں کی گواہی ہے۔
اگرچہ استاد دامن کی شہرت کا مرکز پنجابی زبان ہے، مگر ان کی اردو شاعری بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔ ان کا اردو لہجہ سادہ ہے، کسی دکھاوے یا لفظی چالاکی سے دور۔ وہ سیدھی بات کرتے ہیں اور وہی سیدھی بات پڑھنے والے کے دل میں اترتی ہے۔
ان کی اردو شاعری میں تین عناصر نمایاں ہیں جن میں سرفہرست سیاسی آگہی اور احتجاج ہے۔ وہ سچ کو چھپاتے نہیں تھے۔ اردو نظموں میں بھی سیاست دانوں کی تنگ نظری، وعدوں کی کھوکھلاپن اور سماجی ناہمواریوں پر کھری تنقید ملتی ہے۔ ان کا انداز براہ راست تھا، اور یہی انداز بعد میں جالب جیسے شاعروں میں مزید پختہ صورت میں نظر آتا ہے۔
دوسرا عنصر ان کا محبتِ وطن ہونا ہے۔ پاکستان سے ان کی محبت جذباتی بھی تھی اور فکری بھی۔ انہوں نے غصے میں وطن پر تنقید کی، مگر کبھی اس سے دوری قبول نہ کی۔ ان کا اپنا کہا ہوا جملہ “اگر میرا اردو ایڈیشن دیکھنا ہو تو جالب کو دیکھ لو” ان کی فکری سمت واضح کرتا ہے۔ استاد دامن کہتے ہیں:
جاگن والیاں رج کے لٹیا اے
سوئے تسی وی او، سوئے اسیں وی آں
لالی اکھیاں دی پئی دس دی اے
روئے تسی وی او، روئے اسیں وی آں
ان کی شاعری میں پنجابیت کا تسلسل بھی ہے۔ان کی اردو شاعری میں بھی پنجابی مزاج کی کھری مٹی کی خوشبو موجود ہے۔ محاورے، لہجے، اور سادہ اظہار اردو میں بھی ان کی پہچان رہتے ہیں۔ نور جہاں کی زیر ہدایات بننے والی فلم چن وے کے ایک ایک گیت کا مکھڑا لکھا۔
چنگا بنایا ای سانوں کھڈونا
آپے بناؤونا تے آپے مٹاؤنا
استاد دامن صرف شاعر ہی نہیں تھے، وہ پنجاب کی اجتماعی یادداشت کا حصہ بن گئے۔ ان کا کلام، ان کا مزاج، ان کی بے ساختگی سب کچھ تاریخ میں محفوظ ہو چکا ہے۔
ان کی اہم ادبی خصوصیات میں ان کا عوامی لہجہ نمایان ہے۔ وہ دل کی بات عام آدمی کی زبان میں کہتے ہیں۔ ان کے اشعار مصنوعی ادبیت سے آزاد ہیں، اسی لیے وہ دل تک پہنچتے ہیں۔
ان کی شاعری میں حقیقت نگاری بھی ہے۔ وہ زندگی کو جیسا دیکھتے تھے، ویسا بیان کرتے تھے۔ ان کی شاعری دکھ بھی ہے، احتجاج بھی، اور امید بھی ہے۔
پنجابی ہو یا اردو، ان کا لفظ کبھی کمزور نہیں پڑتا۔ تخیل، مشاہدہ اور طنز تینوں میں ان کی گرفت مضبوط ہے۔ انہوں نے نہ صرف پنجابی زبان کی ترویج کے لیے ادارے بنائے بلکہ عملی طور پر لوگوں کو پنجابی اظہار کے قریب لانے میں کردار ادا کیا۔ دامن اکیڈمی جیسے ادارے انہی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔ زندگی نے انہیں غیر معمولی دکھ دیے۔ بیوی اور کم سن بیٹے کی موت، لائبریری کا جل جانا، فقر و تنگی ان سب نے انہیں توڑا نہیں، بلکہ ان کی شاعری کو مزید گہرا کیا۔ فیض کی وفات نے انہیں اندر تک ہلا دیا۔ صرف تیرہ دن بعد خود بھی اسی دکھ کے پیچھے رخصت ہو گئے۔ دوستوں سے وابستگی اور وفاداری ان کی شخصیت کا بنیادی رنگ تھی۔
استاد دامن کی زندگی، ان کی شاعری اور ان کا عمل تینوں مل کر ہمیں ایک ایسے فنکار سے روشناس کراتے ہیں جو لفظوں سے زیادہ سچ بولنے پر یقین رکھتا تھا۔ پنجابی ادب میں ان کا مقام مسلم ہے، مگر ان کی اردو شاعری بھی اس قابل ہے کہ اسے الگ سے دیکھا اور سمجھا جائے۔ وہ صرف شاعر ہی نہیں تھے بلکہ اپنے عہد کی آواز بھی تھے۔ ان کا فن آج بھی ہمیں یاد دلاتا ہے کہ سادگی میں طاقت ہوتی ہے، اور سچ کبھی پرانا نہیں ہوتا۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت استاد دامن کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ حالات حاضرہ، علم ادب، لسانیات اور تحقیق و تنقیدی موضوعات پر لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر کیا جاسکتا ہے ۔

مزید خبریں