تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
مملکت خداداد پاکستان کی سلامتی کی پالیسی ہمیشہ ایسے رہنماؤں کے گرد تشکیل پاتی رہی ہے جنہوں نے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں خطے میں ملک کی بقا کو اولین ترجیح دی۔ برصغیر کی تقسیم کے فوراً بعد سے لے کر آج تک، ریاستی ڈھانچہ ہو یا عسکری حکمت عملی، پاکستان کی پالیسیوں میں ’’قومی سالمیت‘‘ اور ’’سرزمین کا تحفظ‘‘ مرکزی ستون رہے ہیں۔ اسی تاریخی تسلسل میں فیلڈ مارشل سید جنرل عاصم منیر کا حالیہ بیان ملک کی سلامتی کے اصولی مؤقف کی دوبارہ توثیق ہے۔
قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ملک کو جن بحرانوں کا سامنا ہوا، ان میں سب سے نمایاں مسئلہ سرحدوں کا تحفظ، غیر مستحکم علاقائی ماحول اور اندرونی یکجہتی کی کمی تھی۔ وقت کے ساتھ یہ چیلنجز تبدیل ضرور ہوتے گئے، مگر ان کی نوعیت میں بھی پیچیدگیاں بڑھتی چلی گئی۔ گزشتہ کئی دہائیوں میں پاکستان کو سرحد پار دہشت گردی، ہائبرڈ وار، بیرونی سیاسی دباؤ، معاشی عدم استحکام اور جنگ جیسے مسائل نے متاثر کیا۔ یہی پس منظر آج کی قومی سلامتی کی پالیسی اور عسکری قیادت کے مؤقف کو سمجھنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔
نیشنل سیکیورٹی ورکشاپ 27 کے شرکاء سے گفتگو کرتے ہوئے فیلڈ مارشل سید جنرل عاصم منیر نے جس طرح پاکستان کی سلامتی، تمام شہریوں کے تحفظ اور قومی اتحاد کو بنیادی ترجیحات میں شمار کیا، وہ ریاستی اصولوں کی واضح ترجمانی ہے۔
ان کے خطاب کے چند نمایاں پہلووں میں سرفہرست سرزمین پاکستان کا تحفظ اور قومی سالمیت کی ترجیح ہے۔ فیلڈ مارشل نے واضح کیا کہ ریاستی حدود پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔ پاکستان کی عسکری تاریخ میں یہ بات ہمیشہ مرکزی اصول رہی ہے، مگر موجودہ علاقائی کشمکش نے اسے مزید اہم بنا دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سب سے بڑی طاقت ’’قومی یکجہتی‘‘ ہے۔ اس حقیقت کی تاریخی مثالیں 1965، 2014 کے آپریشنز اور ’’معرکۂ حق‘‘ کے تناظر میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
فیلڈ مارشل نے یہ بھی واضح کیا کہ عالمی طاقتوں کی کشمکش، جیو پولیٹیکل تبدیلیاں اور نئی جنگی ٹیکنالوجیز قومی سلامتی کے تصور کو پہلے سے زیادہ پیچیدہ بنا رہی ہیں۔
ہائبرڈ وار، یہ وہ جنگ ہے جو محاذ پر نہیں بلکہ میڈیا، سوشل نیٹ ورکس اور ابلاغ کے ذریعے لڑی جاتی ہے۔ فیلڈ مارشل نے اس خطرے کو موجودہ دور کا سب سے حساس چیلنج کہا۔
اسمگلنگ، منشیات اور غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف کارروائیاں کی جائیں گی۔ ملکی معیشت اور سماجی ڈھانچے کو متاثر کرنے والے یہ عوامل بھی قومی سلامتی کا حصہ ہیں، اس لیے حالیہ کریک ڈاؤن کو نئے سیکیورٹی ماڈل کا اہم جزو قرار دیا گیا۔
وفاقی و صوبائی سطح پر ہم آہنگی کو اولین ترجیح دی جائے گی۔ سلامتی کے پائیدار نظام کے لیے عسکری اداروں کے ساتھ ساتھ سول ڈھانچے کی کارکردگی اور تعاون ضروری ہے۔ فیلڈ مارشل نے اس مشترکہ کوشش کو ’’مستقبل کا راستہ‘‘ کہا۔
موجودہ دور میں سلامتی کا تصور صرف سرحدوں تک محدود نہیں رہا۔ اب معیشت، داخلی استحکام، اطلاعاتی نظام، تکنیکی مہارت، خارجہ پالیسی یہ سب مل کر قومی سلامتی کا ڈھانچہ بناتے ہیں۔ فیلڈ مارشل کے پیغام میں یہی نیا ماڈل واضح طور پر جھلکتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
پاکستان کی عالمی حیثیت کو تسلیم کروانا ہے۔ یہ نکتہ بھی خاص اہمیت رکھتا ہے کہ پاکستان اپنی جغرافیائی پوزیشن، عسکری طاقت اور علاقائی کردار کے باعث عالمی سطح پر ایک باوقار ملک ہے۔ فیلڈ مارشل کا یہ کہنا کہ پاکستان ’’اپنا جائز مقام ضرور حاصل کرے گا‘‘ دراصل اسی تاریخی اور جغرافیائی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔
فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کی گفتگو نہ صرف موجودہ سیکیورٹی ماحول کا تجزیہ پیش کرتی ہے بلکہ قومی سلامتی کی نئی سمت بھی واضح کرتی ہے۔ ان کے وژن میں سرحدوں کا تحفظ، عوام کا اعتماد، قومی اتحاد، ریاستی اداروں کی ہم آہنگی، ہائبرڈ جنگ سے نمٹنے کی حکمت عملی یہ سب وہ عناصر ہیں جو مستقبل کے پاکستان کی بنیاد بن سکتے ہیں۔
فیلڈ مارشل کا یہ بیان ریاستی استحکام کا راستہ بھی دکھاتا ہے اور آنے والے وقت کے لیے ایک مربوط سیکیورٹی فریم ورک بھی پیش کرتا ہے۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ حالات حاضرہ، علم ادب، لسانیات اور تحقیق و تنقیدی موضوعات پر لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر کیا جاسکتا ہے ۔











