تحریر اقبال زرقاش
کالم فکر فردا
آبپارہ کمیونٹی سینٹر اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ارائیں کمیونٹی کے نو منتخب عہدیداران کی حلف برداری تقریب، صرف ایک رسمی اجتماع نہیں تھا بلکہ برادری کی اجتماعی قوت، تاریخی تسلسل اور سماجی وحدت کا وہ مظہر تھا جو صدیوں پر محیط ایک مضبوط روایت کی یاد تازہ کرتا ہے۔ ہزاروں افراد کی موجودگی، منظم انتظامات اور پروقار ماحول نے یہ ثابت کیا کہ ارائیں قوم آج بھی اپنی شناخت اور باہمی رشتوں کو سلیقے سے نبھا رہی ہے۔
تاریخی حوالوں سے دیکھا جائے تو ارائیں قبیلہ برصغیر کے ان چند قدیم طبقات میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے توسیعِ اسلام کے دور سے لے کر برطانوی ہند تک ہر عہد میں اپنی محنت، زمینداری، انتظامی اہلیت اور سماجی کردار سے اپنی دھاک بٹھائی۔ انہیں لذیذ پھلوں، پھلکاری کے کھیتوں اور زرخیز زمینوں کی رکھوالی کا فطری ہنر عطا تھا جس نے پنجاب کی معیشت اور خوراک کے نظام کو صدیوں تک سہارا دیا۔ انہی خدمات نے انہیں ایک باوقار اور بااثر برادری کے طور پر شناخت بخشی۔
وقت بدلا تو ارائیں کمیونٹی نے بھی اپنے کردار کو جدید تقاضوں کے مطابق وسعت دی۔ نہ صرف زراعت بلکہ تجارت، تدریس، مذہبی خدمات، دفاعی اداروں اور سرکاری محکموں میں بھی ارائیں برادری نے اپنی قابلیت منوائی۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں آج کی تنظیمیں جنم لیتی ہیں اور برادری کو باہمی رابطے، تعاون اور فلاح کی نئی جہتوں سے روشناس کراتی ہیں۔
ارائیں کمیونٹی پاکستان (رجسٹرڈ) اسی سلسلے کی ایک روشن کڑی ہے۔ اس تنظیم کا امتیاز یہ ہے کہ یہ غیر سیاسی، غیر فرقہ وارانہ اور مکمل طور پر رفاہی اصولوں پر قائم ہے۔ میاں مطیع الرحمان ارائیں کی قیادت میں یہ تنظیم نہ صرف پاکستان بلکہ عرب امارات اور یورپ تک اپنا نیٹ ورک رکھتی ہے، جہاں لاکھوں افراد آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ یہ وسعت کسی فرد یا دفتر کا کام نہیں ہوتی—یہ خلوص، دیانت، باہم اعتماد اور اجتماعی شعور کا ثمر ہوتی ہے۔
تقریب میں جب نو منتخب عہدیداران نے حلف اٹھایا تو یہ عمل محض ذمہ داری کی ادائیگی نہیں بلکہ اس تاریخی روایت کی تجدید تھا جس میں بڑوں کا احترام، خدمت کا جذبہ اور برادری کے لیے اخلاص بنیادی اقدار رہے ہیں۔ صدر میاں محمد ہارون ارائیں اور دیگر عہدیداران کی نامزدگی اس امر کا اظہار ہے کہ برادری اب تجربہ کار اور پڑھے لکھے افراد کو آگے لانے کی حکمت عملی اختیار کر رہی ہے۔
میاں مطیع الرحمان ارائیں نے اپنے خطاب میں جس اعتماد سے تنظیم کی وسعت کا ذکر کیا، وہ اس بات کی دلیل ہے کہ ارائیں قوم تنظیمی نظم و ضبط کی اہمیت کو بخوبی سمجھتی ہے۔ پانچ لاکھ سے زائد اراکین کا متحد ہونا آسان نہیں، اور نہ ہی اس اتحاد کو قائم رکھنا معمولی چیلنج ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ارائیں کمیونٹی کے لوگ ہمیشہ ادارہ سازی اور باہمی تعاون کے اصول پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تنظیم ہر آنے والے سال میں مزید ترقی کر رہی ہے۔
تقریب میں مقررین کی گفتگو نے یہ حقیقت بھی اجاگر کی کہ آج کے دور میں برادری کا متحد رہنا محض سماجی ضرورت نہیں بلکہ وقت کی آواز بھی ہے۔ دنیا جس تیزی سے بدل رہی ہے، اس میں تنہا رہنے والی کمیونٹیز پیچھے رہ جاتی ہیں، جبکہ منظم گروہ ترقی کی دوڑ میں آگے نکل جاتے ہیں۔ ارائیں کمیونٹی کی حالیہ متحرکیاں واضح کرتی ہیں کہ انہوں نے وقت کی اس تبدیلی کو محسوس کر لیا ہے۔
تقریب کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ برادری کے روایتی دینی و اخلاقی سلیقے کو برقرار رکھا گیا۔ تلاوتِ کلامِ پاک اور نعتِ رسول مقبولؐ نے اجتماع کو روحانیت عطا کی، جبکہ اسٹیج سیکرٹری میاں عبدالمجید ارائیں نے جس سلیقے سے پروگرام کو آگے بڑھایا وہ تنظیمی تربیت کی مثال تھی۔ یہ شائستگی، وقار اور ترتیب وہ خصوصیات ہیں جنہوں نے ارائیں قوم کو ہمیشہ سرخرو رکھا۔
تقریب کے اختتام پر میاں مطیع الرحمان ارائیں کو گولڈ میڈل اور اعزازی شیلڈ پیش کرنا صرف ایک اعزاز نہیں تھا بلکہ اُن خدمات کا اعتراف تھا جو انہوں نے برسوں تک ملک اور بیرون ملک برادری کے لیے انجام دیں۔ اُن کی شخصیت اس بات کا ثبوت ہے کہ قیادت وہی کر سکتا ہے جس میں برداشت، تدبر، اخلاق اور خدمت کی روایت موجود ہو۔
اس موقع پر کرنل بلال آرائیں ، سیاسی سماجی شخصیت میاں طفیل ( پھل گراں) ریٹائرڈ ڈی ایس پی چوہدری اقبال ارائیں ،میاں جمیل آرائیں ، میاں عمر حیات آرائیں اسلام آباد کے ممتاز سینئر صحافی ، دانشور،کالم نگار ادیب شہزاد حسین نے بھی خصوصی طور پر شرکت کرکے تقریب کو مزید وقار بخشا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو برادری کی آواز کو انتظامی ،میڈیا اور ادبی دنیا تک پہنچاتے ہیں۔ ان کا موجود ہونا اس بات کی علامت ہے کہ ارائیں کمیونٹی صرف سماجی تنظیم نہیں بلکہ ایک فکری روایت بھی ہے جسے تحریر، تحقیق اور ادب سے تقویت ملتی ہے۔
مختصراً یہ کہ اسلام آباد کی یہ تقریب ارائیں کمیونٹی کی تاریخ، تنظیمی شعور، جدید قیادت اور روشن مستقبل کی جاندار تصویر تھی۔ اگر اسی اتحاد و تنظیم کے ساتھ برادری آگے بڑھی تو یقیناً آنے والے برسوں میں یہ نہ صرف پاکستان کی مضبوط ترین کمیونٹیز میں شمار ہوگی بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنی الگ شناخت قائم کرے گی۔











