پروین شاکر: خوشبو کی شاعری
(24 نومبر یوم پیدائش پر خصوصی تحریر)
تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
اردو شاعری کی تاریخ میں وہ خواتین شاعرہ بہت کم ہیں جنہوں نے کم وقت میں اپنی پہچان اس شدت سے قائم کی کہ ان کے بعد آنے والی نسلیں انہیں ایک عہد کی علامت سمجھنے لگیں۔ پروین شاکر انہی میں سے ایک بہترین شاعرہ تھیں۔ وہ صرف شاعرہ ہی نہیں تھیں، بلکہ ایک پوری سماجی، فکری اور نسائی روایت کی نئی تشکیل کا ذریعہ بھی بنیں۔ ان کی شاعری نے اردو غزل کے لہجے کو نئی سمت دی اور عورت کی داخلی خیالات کو پہلی بار اس کھلے پن، نرمی اور بے ساختگی کے ساتھ بیان کیا جس کی مثال جدید اردو شاعری میں کم ملتی ہے۔
پروین شاکر 24 نومبر 1952 کو کراچی میں ایک علمی اور ادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد شاکر حسین ثاقب خود بھی شاعر تھے، جس نے پرویز شاکر کی ادبی شخصیت کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد نئے وطن مملکت خداداد پاکستان میں شناخت کی تلاش، شہری زندگی کی بنتی بگڑتی صورت حال اور متوسط طبقے کے مسائل یہ ساری فضا پروین کی شخصیت کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری میں بھی رچی بسی نظر آتی ہے۔
ان کی تعلیم نہایت متنوع رہی۔ انگریزی ادب، لسانیات، انتظامی علوم اور بعد میں ہارورڈ سے ماسٹرز کی ڈگری یہ سفر بتاتا ہے کہ وہ محض جذبے کی ہی شاعرہ نہیں تھیں بلکہ ایک گہری فکری بنیاد بھی رکھتی تھیں۔
سن ستر کی دہائی اردو غزل کے لیے ایک نئے تجرباتی دور کا آغاز تھی۔ فیض، جمیل الدین عالی، جون ایلیا، احمد مشتاق اور قتیل شفائی جیسے شعرا اپنی اپنی آوازوں کے ساتھ موجود تھے۔ اس منظرنامے میں ایک نئی نوجوان شاعرہ کا آنا آسان نہیں تھا۔ لیکن ان کی کتاب خوشبو (1976) نے منظر ہی بدل دیا۔
اس مجموعے نے یہ واضح کر دیا کہ ایک نرم لہجے میں کہی گئی بات کبھی کبھی سب سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے۔ عورت کا احساس، عورت کی زبان اور عورت کی داخلی بے چینی کو پہلی بار اتنی سادگی اور نفاست سے بیان کیا گیا کہ پوری نسل نے اس کی طرف توجہ کی۔
پروین شاکر کی غزل روایت اور احساس کا نیا امتزاج بھی جابجا ملتا ہے۔ پروین شاکر کی غزل کلاسیکی روایت سے جڑی ہوئی ہے، لیکن اس میں ایک نیا لہجہ ہے۔ استعارے وہی ہیں مثلاً چاند، پھول، خوشبو، بارش، تتلی وغیرہ لیکن ان کے معنی بدل گئے۔ محبوب کے بجائے محبوبہ کی داخلی کیفیات موضوع بن گئیں۔
ان کی غزل کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ عورت کو موضوع نہیں بناتیں بلکہ اسے خود مصنف بھی بناتی ہیں۔
نسائی ضمیر کا براہِ راست استعمال، نرمی کے ساتھ احتجاج اور جذبات کے اظہار میں جھجھک سے انکار یہ وہ خصوصیات ہیں جو پروین شاکر کی غزل کو ممتاز بناتی ہیں۔
مثال کے طور پر “وہ تو خوشبو ہے” والا شعر محض رومانی کیفیت ہی نہیں، بلکہ جذباتی تعلق میں طاقت کے عدم توازن کی نشاندہی بھی ہے۔
اگر غزل ان کی پہچان ہے تو آزاد نظم ان کا اصل تجربہ گاہ ہے۔ یہاں انہیں کسی عروضی پابندی نے محدود نہیں کیا۔ اسی لئے ان کی آزاد نظموں میں موضوعات نہایت وسیع ہیں جن میں سماجی نابرابری، عورت پر معاشرتی دباؤ، جنسی استحصال، معاشی ظلم، سیاسی اور طبقاتی منافقت، جدید شہری زندگی کی بے حسی وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔
“اسٹیل ملز ورکر” جیسی نظمیں صرف ادب نہیں بلکہ ایک سماجی دستاویز بھی ہیں۔ یہاں محبت کی نہیں، پسینہ بہاتے عام آدمی کی بات کی گئی ہے جو ترقی کے نام پر قربان ہو جاتا ہے۔
اسی طرح “وی آر آل ڈاکٹر فاسٹس” میں طاقت اور دولت کے کھیل کو بے نقاب کیا گیا ہے۔
پروین شاکر نے انگریزی الفاظ کا استعمال بھی بے جھجک کیا، جسے بعض ناقدین نے انہیں اعتراض کا نشانہ بنایا، لیکن ان کا اصرار تھا کہ شہری عورت کی زندگی انہی الفاظ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ انہوں نے زبان کو حقیقت سے جوڑ کر پیش کیا، نہ کہ روایت کی خاطر اسے جامد رکھا۔
ان کی شاعری میں جہاں محبت کا ذکر ملتا ہے وہاں عورت اور سماج کا بھی زکر ملتا ہے۔ پروین شاکر شاعری کے موضوعات کی تہہ داری سب سے منفرد ہے۔ پروین شاکر کی شاعری کا سب سے بنیادی پہلو عورت کے احساسات کی صداقت ہے۔ وہ محبت کو رومانیت کے پردے میں چھپاتی نہیں، بلکہ اس کی تکلیف، اس کی فوری کیفیت اور اس کی سماجی قیمت دونوں کو ساتھ لے کر چلتی ہیں۔
ان کی شاعری میں تین واضح محور دکھائی دیتے ہیں جن میں سرفہرست عورت کی داخلی دنیا ہے۔ محبت، بے وفائی، تنہائی، انتظار، خوف، امید یہ سارے جذبات پروین شاکر کی شاعری کا بنیادی حصہ ہیں۔ وہ ان احساسات کو پوری ایمانداری کے ساتھ لکھتی ہیں۔
ان کی شاعری میں عورت کا سماجی مقام بھی واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ طلاق، تنہائی، معاشرتی عدم اعتماد، اور مردانہ معاشرے کا جبر یہ سارے موضوعات اس شدت کے ساتھ پہلی بار کسی شاعرہ نے اٹھائے وہ پروین شاکر ہیں۔
انہوں نے جدید شہری زندگی کی پیچیدگیاں بھی بیان کی ہیں۔ دفتر، کارپوریشن، مہنگائی، تھکن، رش اور سیاسی بے چینی یہ سب کچھ پروین شاکر کی نظموں میں دکھائی دیتا ہے۔ وہ عورت کو صرف محبت کرنے والی ہستی کے طور پر پیش نہیں کرتیں، بلکہ ایک مکمل سماجی وجود کے طور پر پیش کرتی ہیں۔
پروین شاکر کے اسلوب میں چند بنیادی خصوصیات نمایاں ہیں جن میں نرم، پُرتاثیر اور شگفتہ لہجہ، استعاروں کا تخلیقی استعمال، اشاریت اور علامتوں کی تہہ دار
جذبات کی براہِ راست ترجمانی،زبان کی سادگی جو گہری معنویت رکھتی ہے، شہری زند گی کے جدید حوالوں کا استعمال وغیرہ وغیرہ۔ ان کے ہاں جذبات کبھی غیر ضروری پھیلاؤ کا شکار نہیں ہوتے۔ مختصر مصرع، سادہ ترکیب اور پُراثر تصویر یہی ان کا فنی اصول ہے۔
اردو تنقید نے پروین شاکر کو ہمیشہ سنجیدگی سے لیا۔ ان کے بارے میں تین بڑے نقطۂ نظر ملتے ہیں جن میں وہ جدید اردو غزل میں نسائی آواز کی سب سے مضبوط نمائندہ ہیں۔
ان کی غزل میں جذباتیت کہیں کہیں زیادہ ہے، لیکن اس کی صداقت سے انکار ممکن نہیں۔
آزاد نظم میں ان کی فکری گہرائی زیادہ نمایاں ہے بنسبت غزل کے۔
ان کے اثرات کی وسعت اس بات سے اندازہ لگائی جا سکتی ہے کہ آج کئی شاعرہ اپنے لہجے میں ان کے رنگ کی جھلک رکھتی ہیں، مگر اصل تخلیقی قوت صرف پروین شاکر کے پاس تھی۔
26 دسمبر 1994 کا حادثہ اردو ادب کے لئے ایسا سانحہ تھا جس نے ایک پورا عہد ادھورا چھوڑ دیا۔ وہ صرف 42 برس کی تھیں۔ ان کی موت نے ان کی شخصیت کے گرد ایک دائمی افسانوی فضا پیدا کر دی۔
ان کے بعد قائم ہونے والا پروین شاکر ادبی میلہ اور ان کے نام سے دی جانے والی ادبی خدمات کے اعزاز کی روایت اس بات کی علامت ہے کہ ان کا اثر اب بھی کم نہیں ہوا۔
پروین شاکر کی شاعری صرف الفاظ کا مجموعہ ہی نہیں، بلکہ ایک پوری نسل کی داخلی کائنات کی ترجمان بھی ہے۔ انہوں نے اردو غزل کو نیا لہجہ دیا، آزاد نظم کو نئی سمت دی اور عورت کو وہ زبان دی جس سے وہ اپنی کہانی خود سنانے کے قابل ہو گئی۔
ان کا ادبی سفر مختصر ضرور ہے، لیکن اس میں ایسی گہرائی اور وسعت ہے کہ آنے والی نسلیں انہیں جدید اردو شاعری کا سنگِ میل سمجھتی رہیں گی۔ پروین شاکر اپنے اسلوب، فکر، درد اور حسنِ بیان کے ساتھ آج بھی ہمارے ادب کا زندہ حوالہ ہیں۔ الله انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے آمین۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ حالات حاضرہ، علم ادب، لسانیات اور تحقیق و تنقیدی موضوعات پر لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔











