اتوار,  09 نومبر 2025ء
27ویں ترمیم اور وفاقی آئینی عدالت

عدالت نامہ

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

پاکستان کی آئینی سیاست میں وقت وقت پر بڑی بحثیں اٹھتی رہیں کہ آئین کی تشریح کا اصل اختیار کس کے پاس ہے۔ 1954 سے 1973 تک کے آئینی سفر میں یہ سوال کبھی عدلیہ کے اور کبھی انتظامیہ کے تناظر میں سامنے آتا رہا۔ جب 1973 کا آئین بنا تو سپریم کورٹ کو اس حوالے سے سب سے برتر اتھارٹی تصور کیا گیا۔ اس روایت نے اگلے پچاس برسوں میں ایک ایسے طرز کا عدالتی کلچر بنایا جس میں آئین کی تشریح اور بنیادی حقوق کی تشریح کے حوالے سے سپریم کورٹ ایک سیاسی اور آئینی طاقت بن گئی۔ یہ ایکٹ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں بنیادی نوعیت کی آئینی و عدالتی اصلاحات کے لیے منظور کیا گیا ہے۔
ستائیسویں آئینی ترمیم (ایکٹ 2025) اسی تاریخی پس منظر کو کاٹ کر ایک نئی سمت متعین کرتی ہے۔ اس کے تحت وفاقی آئینی عدالت کو ایک باقاعدہ مستقل ادارے کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔ یہ عدالت براہ راست آئین کی تشریح کرے گی اور وفاق اور صوبوں کے درمیان تنازعات کا فیصلہ کرے گی۔ یہ تبدیلی صرف ایک عدالت کا اضافہ نہیں بلکہ آئینی طاقتوں کی نئی تقسیم ہے۔
وفاقی آئینی عدالت کا قیام
آئین میں ایک نئی عدالت “وفاقی آئینی عدالت (Federal Constitutional Court)” کے قیام کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ پاکستان میں تین اعلیٰ عدلیہ یعنی عدالت عظمیٰ(سپریم کورٹ)، وفاقی شرعی عدالت اور عدالت علیہ(ہائی کورٹ) پہلے سے موجود ہیں اور وفاقی آئینی عدالت ان سب سے بڑی عدالت تصور ہوگی۔ اللہ خیر کرے کہ آئندہ کون کون سی مزید عدالتیں بنیں گی۔ ویسے ایک تجویز ہے کہ ملک کو نظم نسق چلانے کے لیے مندرجہ ذیل عدالتوں کے قیام کی اشد ضرورت ہے:
وفاقی سیاسی عدالت،
وفاقی انتقامی عدالت،
وفاقی انتظامی عدالت،
وفاقی اجتماعی عدالت،
وفاقی فوجی عدالت،
وفاقی جوڈیشل عدالت،
وفاقی احتسابی عدالت،
وفاقی قومی عدالت،
وفاقی صوبائی عدالت اور وفاقی درباری عدالت شامل ہیں۔ امید ہے آئندہ جو بھی آئینی ترمیم کرنی ہو تو ان تجاویز پر عمل کیا جائے۔ بہر حال یہ تو جملہ متعرضہ تھا جو خواہ مخواہ بیچ میں آگیا۔

نئی تخلیق شدہ وفاقی آئینی عدالت آئین کی تشریح، بنیادی حقوق اور وفاق و صوبوں کے درمیان تنازعات سے متعلق مقدمات کی اصلی، اپیلی، مشاورتی اور نظرثانی کی مکمل اختیار دار عدالت ہوگی۔ اس عدالت کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہوگا۔ چیف جسٹس کی مدتِ کار تین سال مقرر کی گئی ہے جبکہ جج صاحبان اڑسٹھ (68) سال کی عمر میں ریٹائر ہوں گے۔
وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور جج صاحبان کی تقرری صدرِ مملکت، وزیرِاعظم کے مشورے سے اور جوڈیشل کمیشن کی سفارش پر کرے گا۔ یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا یہ تبدیلی آئینی نظام کو مستحکم کرے گی؟ یا عدالتی اتھارٹی میں ایک نئی دوائی پولرائزیشن پیدا کرے گی۔
سپریم کورٹ کے اختیارات میں تبدیلی کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس (Suo Motu) اختیار ختم کر دیا گیا ہے (آرٹیکل 184 حذف کر دیا گیا)۔
سپریم کورٹ اب بنیادی طور پر صرف اپیلی عدالت کے طور پر کام کرے گی۔
آئینی تعبیرات، حکومتی تنازعات اور بنیادی حقوق سے متعلق مقدمات کا اختیار اب وفاقی آئینی عدالت کے پاس ہوگا۔
وفاقی آئینی عدالت کے فیصلے سپریم کورٹ پر بھی لازم ہوں گے، جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے دیگر عدالتوں پر تو لازم ہوں گے لیکن وفاقی آئینی عدالت پر نہیں۔ یہی اس عدالت کی سب سے بڑی خوبی ہے‌۔
سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے اختیارات کی معطلی اس بحث کا اہم نکتہ ہے۔ آرٹیکل 184 کی حذفگی کا مطلب ہے کہ اب وہ روایتی کردار جس کے باعث بڑے سیاسی تشریحی فیصلے سامنے آتے تھے، ختم ہو گیا۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ آئینی تشریحی قوت سپریم کورٹ سے ہٹ کر ایک نئی عدالت کے ہاتھ میں منتقل کر دی گئی ہے۔ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان میں تبدیلیاں کی گئی ہے۔ جوڈیشل کمیشن میں اب چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت اور چیف جسٹس سپریم کورٹ دونوں شامل ہوں گے۔
دونوں عدالتوں کے سینئر ججز اور ایک مشترکہ طور پر نامزد جج بھی کمیشن کا حصہ ہوں گے۔ کمیشن کی سربراہی جس چیف جسٹس کی سینارٹی زیادہ ہوگی، وہ کرے گا۔
جوڈیشل کمیشن اور سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل میں بھی وفاقی آئینی عدالت کو شریک کرنا ظاہر کرتا ہے کہ صرف اختیارات کی تبدیلی نہیں ہوئی بلکہ پورا عدالتی ڈھانچہ ایک نئی توازن سازی کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل میں بھی وفاقی آئینی عدالت کے ججز کو شامل کیا گیا ہے۔ اب کونسل کے سربراہ وہ چیف جسٹس ہوں گے جو دونوں میں (سپریم کورٹ یا وفاقی آئینی عدالت) زیادہ سینئر ہوں۔ کونسل اپنے طریقہ کار سے متعلق قواعد ساٹھ (60) دن میں مرتب کرے گی۔
ہائی کورٹ کے آئینی بنچز کی حد بندی اس امر کی یاد دہانی ہے کہ آئینی کیسز کی سنائی کے لئے اب ایک واضح راستہ مقرر کیا گیا ہے۔ یہ معاملہ مستقبل میں آئینی تشریحات کی یکسانیت اور تسلسل کے حوالے سے اہم کردار ادا کرے گا۔
ہائی کورٹس اور آئینی بنچز
آرٹیکل 202A میں ترمیم کے مطابق:کوئی بھی ہائی کورٹ کا بنچ آئینی دائرہ کار استعمال نہیں کرے گا، سوائے اس کے جو آئینی بنچ ہو۔
ہائی کورٹ کے ججز کی تبادلے اور تقرری کے طریقہ کار کو جوڈیشل کمیشن کی سفارش سے مشروط کر دیا گیا ہے۔
آرٹیکل 243 میں دفاعی ڈھانچے میں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں وہ اس آئینی پیکج کا اہم ترین اور شاید سب سے زیادہ متنازعہ حصہ ہیں۔ عسکری قیادت کے عہدوں کی نئی درجہ بندی اور ان عہدوں کی حیثیت کا آئینی تقدس مستقبل میں سول ملٹری تعلقات کے توازن پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
دفاعی ڈھانچے میں بھی بڑی تبدیلی کی گئی ہے۔ آرٹیکل 243 میں ترمیم کے تحت چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کر دیا گیا۔
آرمی چیف کو بیک وقت چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ دیا گیا۔
نیشنل اسٹریٹیجک کمانڈ کے کمانڈر کی تقرری آرمی چیف کی سفارش پر وزیرِاعظم کرے گا۔
اگر کسی فوجی افسر کو فیلڈ مارشل، مارشل آف دی ایئر فورس یا ایڈمرل آف دی فلیٹ کے عہدے پر ترقی دی جائے تو وہ عہدہ تاحیات برقرار رکھے گا۔
ان عہدوں کے حامل افراد کو “قومی ہیرو” قرار دیا گیا ہے اور ان کی برطرفی صرف آرٹیکل 47 کے مطابق ممکن ہوگی۔
یہ سب تبدیلیاں ایک غیر معمولی آئینی پیکج کی صورت رکھتی ہیں۔ یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ یہ آئینی اصلاحات ملک میں ادارہ جاتی توازن کو بہتر بنائیں گی یا مزید سوالات کھڑے کریں گی۔ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ اہم ہے کہ ایک پورے عدالتی آؤٹ لائن کو تبدیل کرنے کی یہ پہلی منظم کوشش ہے جس کے اثرات آنے والے برسوں میں واضح ہوں گے۔
دیگر اہم ترامیم بھی کی گئی ہیں۔ کئی آرٹیکلز میں لفظ “سپریم کورٹ” کی جگہ “وفاقی آئینی عدالت” شامل کیا گیا۔
آرٹیکل 260 میں “ٹیکنوکریٹ” کی نئی تعریف دی گئی ہے وہ یہ کہ “ٹیکنوکریٹ سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس کم از کم سولہ سالہ تعلیم اور پندرہ سالہ پیشہ ورانہ تجربہ ہو۔”
آئین کی تیسری، چوتھی اور پانچویں شیڈولز میں بھی حلف، قواعد اور مراعات سے متعلق تبدیلیاں کی گئی ہیں تاکہ وفاقی آئینی عدالت شامل ہو سکے۔
آنے والا وقت ثابت کرے گا کہ یہ تبدیلی ایک ادارہ جاتی ارتقا تھی یا ایک نیا آئینی تجربہ۔ اس پر قانونی ماہرین کی رائے سب سے اہم ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ ترامیم اپوزیشن جماعتوں اور وکیلوں کے لیے کس حد تک قابل قبول ہوں گے۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ حالات حاضرہ، علم ادب، لسانیات اور تحقیق و تنقیدی موضوعات پر لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔

مزید خبریں