منگل,  04 نومبر 2025ء
سوچ سب کی ایک جیسی ہو جائے تو!
کالم میں اور میرا دوست

تحریر: ندیم طاہر

کہتے ہیں اختلافِ رائے صحافت کی خوبصورتی ہے۔ اگر سوچ سب کی ایک جیسی ہو جائے تو نہ تحریر میں تازگی رہتی ہے اور نہ معاشرے میں فکر کی روشنی۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جب اختلاف اتنا بڑھ جائے کہ اتحاد ہاتھ سے نکلنے لگے، تب کوئی بھی پیشہ کمزور ہو جاتا ہے۔ آج کل مانچسٹر میں صحافیوں کے اتحاد کی باتیں ہو رہی ہیں۔ چائے خانوں میں بھی، پریس کانفرنسوں کی راہداریوں میں بھی، اور پھر واٹس ایپ گروپوں کے ہنگاموں میں بھی ہر طرف ایک ہی سوال گردش کر رہا ہے: کیا ہم ایک ہو سکتے ہیں؟

میرا ایک دوست ہے۔ وہ بھی صحافت کے میدان میں میرے ساتھ سفر کا ہمراہ ہے۔ اکثر ہم اس موضوع پر گفتگو کرتے ہیں۔ میں اسے کہتا ہوں کہ اتحاد اتنا مشکل بھی نہیں، بس نیت اور ضرورت دونوں کا ہونا لازمی ہے۔ اور وہ مسکرا کر جواب دیتا ہے: “نیت تو سب کی اچھی ہے، مسئلہ شناخت کا ہے۔”
اس کی بات میں وزن ہے۔ مانچسٹر میں آج صورتحال یہ ہے کہ ایک شہر میں ایک نہیں، دو نہیں بلکہ تقریباً پانچ پریس کلب سرگرم ہیں۔ ہر ادارہ اپنی جگہ پر سرگرمِ عمل ہے۔ ہر گروپ اپنی شناخت، اپنی قیادت اور اپنے دائرۂ اثر کو اہم سمجھتا ہے۔ کوئی اسے تقسیم کہتا ہے، کوئی اسے ورائٹی۔ کوئی سمجھتا ہے کہ یہ جمہوریت کی علامت ہے، تو کوئی اسے ضرورت اور مجبوریوں کی پیداوار قرار دیتا ہے۔ مگر حقیقت اپنی جگہ موجود ہے: اتنے چھوٹے سے پاکستانی میڈیا سیٹ اپ میں اتنے زیادہ پلیٹ فارم، کیا ہم واقعی اس کے متحمل ہیں؟

میری رائے میں اتحاد کرنا آسان نہیں۔ ہر تنظیم، ہر قیادت، ہر صحافی اپنی ایک تاریخ رکھتا ہے۔ علاقائی پس منظر، ذاتی تعلقات، نظریاتی وابستگیاں اور شہریوں کے ساتھ سلوک یہ سب مل کر صحافی کی پہچان بناتے ہیں۔ ایسے میں ایک پلیٹ فارم پر آنا بظاہر خوبصورت خواب تو ہے، حقیقت میں مگر بڑا کٹھن سفر۔ مگر کیا یہ ناممکن ہے؟ میں اور میرا دوست اسی پر بحث کرتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ اگر لوگ مسجدوں کی سیاست میں ایک نہیں ہو سکتے تو میڈیا والے کیسے ہوں گے۔ میں جواب میں کہتا ہوں کہ میڈیا روشنی بانٹنے والوں کا کام ہے، اگر ہم ہی بکھر جائیں تو روشنی کہاں سے آئے گی؟
اصل مسئلہ شاید یہ نہیں کہ پانچ پریس کلب کیوں ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ان پانچوں کے دل ایک ہیں؟ اگر نیت، تعاون اور باہمی احترام موجود ہو تو اداروں کی تعداد اتنی اہم نہیں رہتی۔ لیکن اگر مقصد محض گروہ بندی ہو، پھر اتحاد خواب ہی رہتا ہے۔

میرا دوسرا زاویہ مختلف ہے۔ میں تو خود کو ابھی بھی صحافت کا ادنیٰ طالبعلم سمجھتا ہوں۔ تجربات سیکھ رہا ہوں، اور شاید اسی لیے میری سوچ سیدھی اور سادہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم سب کو واقعی ایک جگہ اکٹھا کرنا ہے تو پھر ہماری پہلی ترجیح وہ پلیٹ فارم ہونا چاہیے جسے کوئی مانچسٹر میں نظرانداز نہ کر سکے اور وہ ہے

پاکستان قونصلیٹ مانچسٹر۔

پاکستانیت وہ واحد رشتہ ہے جس پر کبھی اختلاف نہیں ہونا چاہیے۔ وطن سے محبت، قومی دنوں پر اتحاد، اور قومی مفاد میں مشترکہ موقف یہی وہ ستون ہیں جن پر صحافتی وحدت کھڑی ہو سکتی ہے۔

ہر سال 14 اگست آتا ہے اور ہم سب سبز ہلالی پرچم کے نیچے ایک ہو جاتے ہیں۔ اس روز نہ گروہ ہوتا ہے نہ شناخت۔ سب پاکستانی، سب وطن کے خیرخواہ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہ جذبہ صرف ایک دن رہتا ہے؟ اگر اس دن سب اکٹھے ہو سکتے ہیں تو باقی دنوں میں کیوں نہیں؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

میں اور میرا دوست اکثر سوچتے ہیں: اگر کسی جگہ سے اتحاد کی کرن پھوٹ سکتی ہے تو وہ قونصلیٹ آفس ہے۔ یہ ہمارا قومی مرکز ہے، ہماری شناخت کا سرکاری دروازہ۔ اگر یہاں بیٹھ کر ہم سب صحافی فیصلہ کریں کہ اختلاف اپنی جگہ مگر قومی امور پر، کمیونٹی کے مسائل پر، وطن کے تشخص پر ہم ایک آواز بنیں گے، تو پھر یقین جانیے دنیا ہمیں سننے پر مجبور ہو جائے گی۔ اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر ہم واٹس ایپ کے مباحثوں اور میفلوں کی بحثوں میں ہی الجھے رہیں گے۔

صحافت ایک مقدس ذمہ داری ہے۔ یہ رسمِ دنیا نہیں، مشن ہے۔ خبر لکھنا، سوال اٹھانا، سچ بیان کرنا یہ سب محض الفاظ نہیں بلکہ کردار اور اخلاق کا امتحان ہیں۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے: جو قلم قوم کو جوڑنے کے لیے نہیں اٹھتا وہ محض سیاہی پھیلا دیتا ہے۔

میرا دوست کہتا ہے کہ شاید ہم سب کو پہلے ”دوست“ بننا ہے، پھر صحافی۔ اور میں کہتا ہوں کہ اگر دوست نہ بنے تب بھی کم از کم ”پیشہ ورانہ احترام“ لازم ہے۔ بعض اختلافات وقت کے ساتھ ختم ہو جاتے ہیں، مگر رویّے اگر تلخ ہو جائیں تو رشتے نہیں بن پاتے۔ اس لیے ضرورت صرف اتحاد بنانے کی نہیں، دل جوڑنے کی ہے۔ اپنی رائے رکھتے ہوئے دوسروں کی سننے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا۔ اختلاف کو دشمنی سے نکال کر علم اور مکالمے تک محدود کرنا ہوگا۔
میرا اور میرے دوست کا یقین یہ ہے کہ مانچسٹر کی پاکستانی صحافت دنیا میں ایک روشن مقام رکھ سکتی ہے۔ یہاں تجربہ بھی ہے، صلاحیت بھی، اور جذبہ بھی۔ بس ایک کمی ہے اعتماد اور ایک دوسرے کو جگہ دینے کی۔ اگر ہم اپنی جگہ چھوڑے بغیر، اپنی شناخت ختم کیے بغیر، مل بیٹھ کر کوئی اجتماعی پلیٹ فارم تشکیل دے دیں یا کم از کم مشترکہ ایجنڈا طے کر لیں تو تاریخ لکھے گی کہ پاکستانی صحافی پردیس میں بھی وطن کی لاج رکھ گئے۔
اختتام پر پھر وہی درخواست: اگر اتحاد مشکل لگتا ہے تو دوستی آسان بنائیں۔ اگر پلیٹ فارم ایک نہیں بنتا تو دل ایک رکھیں۔ اور اگر پھر بھی کچھ نہ ہو تو کم از کم 14 اگست کے جذبے کو باقی دنوں میں بھی زندہ رکھیں۔ وطن ہمارا ہے، شناخت ہماری ہے، اور قلم ہماری امید ہے۔ آج ہم متحد ہوں گے تو آنے والی نسلیں فخر کریں گی کہ پردیس میں پاکستانی صحافت نے صرف خبر ہی نہیں دی بلکہ تاریخ بھی لکھی۔

مزید خبریں