از: تجزیاتی قلم کی نظر سے
تحریر: عدیل آزاد
دنیا ایک نئے موڑ پر کھڑی ہے۔ طاقت کا توازن بدل رہا ہے، اور وہ مراکز جو دو صدیوں سے دنیا کی سمت طے کرتے آئے ہیں، اب کمزور پڑنے لگے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ عالمی دورہ اسی نئی صف بندی کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ مشرقِ وسطیٰ سے ہوتا ہوا برطانیہ، یورپ اور بالآخر مشرقی ایشیاء پہنچا، جہاں جنوبی کوریا میں چین کے وزیراعظم سے ملاقات کے ساتھ اس دورے کا اختتام ہوا۔ یہ ملاقات محض ایک رسمی سرگرمی نہیں، بلکہ بدلتے عالمی منظرنامے میں نئی صف بندی کی نشاندہی ہے۔
امریکہ کا نیا اضطراب
امریکہ، جو کبھی عالمی معیشت کا بلاشرکتِ غیرے بادشاہ تھا، اب اپنی ڈوبتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لیے اتحادیوں کے در پر جا پہنچا ہے۔ دفاعی معاہدات، معدنی وسائل کی شراکت اور تجارتی وابستگی کے ذریعے وہ دنیا کے مختلف خطوں کو اپنی گرفت میں رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
جنوبی ایشیاء کے ممالک — خاص طور پر بھارت اور پاکستان — کو بھی انہی معاہدات کے جال میں جکڑنے کی حکمتِ عملی جاری ہے، تاکہ خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر کو کم کیا جا سکے۔
چین اور مشرقی اتحاد کی ابھرتی طاقت
اس کے برعکس چین اور اس کے اتحادی ممالک نے خودکفالت، پیداوار اور خودانحصاری کی بنیاد پر ایک ایسا نظام کھڑا کیا ہے جو مغربی دنیا کے لیے لمحۂ فکریہ بن چکا ہے۔
چینی معیشت صرف اعداد و شمار میں نہیں بلکہ فکری و صنعتی سطح پر بھی مغرب کے مقابل ایک متبادل ماڈل بن کر اُبھر رہی ہے۔ اب وہ دور نہیں جب ایشیائی اقوام مغربی مالیاتی اداروں کے سامنے دستِ سوال دراز کرتی تھیں — اب وہ اپنی پالیسیاں خود طے کر رہی ہیں۔
⚖️ زوالِ مغرب، عروجِ مشرق
ہم اُس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو مغربی سامراج — بالخصوص برطانیہ اور امریکہ — کے اڑھائی سو سالہ غلبے کے زوال کا مشاہدہ کر رہی ہے۔
دنیا کا طاقت کا توازن مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے، اور عالمی قیادت کا منصب اب آہستہ آہستہ ایشیاء کے ہاتھوں میں آنے والا ہے۔
یہ وہ تاریخی موڑ ہے جو شاید صدیوں میں ایک بار آتا ہے — جب غلام اقوام اپنی زنجیریں توڑ کر خود فیصلے کرنے کے قابل بن جاتی ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کی تباہ کاری
ماضی کی دنیا سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال اور ظلم کا گواہ ہے۔ ایشیاء و افریقہ کی اقوام نے اپنے وسائل کو لٹتے، اپنی ثقافتوں کو مٹتے، اور اپنی نسلوں کو محکومی میں پِستا دیکھا۔
خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مسلم دنیا مغربی طاقتوں کی طفیلی ریاستوں میں تبدیل ہو گئی۔ برصغیر کی تقسیم بھی دراصل اسی سامراجی منصوبے کا حصہ تھی — جہاں آزادی کے نام پر انحصار اور دشمنی کے نئے بیج بوئے گئے۔
️ عوامی شعور کی بیداری
اکیسویں صدی کے آغاز نے عالمی سیاست میں ایک نیا رجحان پیدا کیا ہے — عوامی سطح پر بیداری اور سوال اٹھانے کی قوت۔
پاکستان میں بھی ایک فکری تبدیلی کی لہر موجود ہے۔ اگرچہ مقتدرہ اور سیاسی قیادت ابھی تک مغربی تربیت کے اثر سے آزاد نہیں ہو سکی، لیکن عوامی شعور اب روایتی سیاست سے آگے دیکھنے لگا ہے۔
ہمیں اپنی سرحدوں سے باہر نفرت کے بیانیے کے بجائے باہمی تعاون اور اتحاد کی بات کرنی ہوگی، کیونکہ دشمنی اس خطے کی فطرت نہیں بلکہ سامراجی مفادات کا نتیجہ ہے۔
مستقبل کا پاکستان اور نئی قیادت کی تلاش
اگر عوامی بیداری کو کسی منظم اور مخلص قیادت نے صحیح سمت دی، تو پاکستان ایک مضبوط، خودمختار اور ترقی یافتہ ملک بن سکتا ہے۔
مگر فی الحال ہمارے سیاسی، مذہبی اور اصلاحی گروہ اپنی عوامی مقبولیت کھو چکے ہیں۔ ان کی سرگرمیاں مخصوص حلقوں اور فرقوں تک محدود ہیں۔ ملک کو ایک ایسی تحریک کی ضرورت ہے جو قوم کو نظریے، شناخت اور عمل کے ایک مشترکہ رُخ پر متحد کر سکے۔
صدیِ ایشیاء — مغرب کے زوال کا آغاز
دنیا کی بساط بدل رہی ہے۔ صدیوں کی غلامی، معاشی اجارہ داری اور فکری تسلط اب انجام کے قریب ہیں۔
یہ صدی بلاشبہ براعظم ایشیاء کے عروج اور مغرب کے زوال کی صدی ہے۔
ان شاءاللہ، آنے والا دور مشرق کے لیے روشنی، خودداری اور قیادت کا نیا عہد لے کر طلوع ہوگا — اور شاید پہلی بار تاریخ انصاف کے قریب پہنچے گی۔











