بدھ,  29 اکتوبر 2025ء
حافظ آباد کی آواز سنو
تحریر: شوکت علی وٹو

تحریر: شوکت علی وٹو

ضلع بھر میں گوشت سرکاری ریٹ پر ملنا ناممکن ہے ،قصابوں کی دیدہ دلیری زائد ریٹ پر گوشت کی فروخت جاری.جبکہ عام شہری بطور گاہک اپنے حقوق سے نا آشنا ہے جس کی بدولت گراں فروشی کی چاندی ہے، بیوروکریسی کا شاہانہ انداز میں شکایت کنندہ کو ہی تختہ مشق بنا لینا بھی شکایت کرنے سے روکتا ہے،جس طرح ماضی میں بیوروکریسی شکایت کندہ سے انداز اپناتے تھے اگر پیرا فورس کے افسران سے بھی وہی انداز اپنایا گیا تو پھر شکایت کنندہ حسب سابق خاموش ہو جائے گا جس کا نقصان سیاسی حکمران جماعت کو ضرور ہو گا.کرئم کنٹرول ڈپارٹمنٹ کے بعد دوسرا بڑا اہم فیصلہ ہے جس کے ثمرات پنجاب کی عوام کو ملنے چاہیے.پیرا فورس سے ابھی تک ہول سیل مارکیٹ ڈیلر کی طرح جانوروں کی منڈیوں کو بھی کنٹرول نہ کرنے کے سبب گوشت کا ریٹ کنٹرول کرنا ممکن نہیں گا،اس حوالے سے ضلعی انتظامیہ کی پیرا فورس بھی ناکام ہو رہی ہے ایک بڑا سوال ہے جو تا حال شہر سمیت ضلع بھر میں قصابوں سے کنٹرول ریٹ پر گوشت کی فروخت ممکن نہ بنا سکی۔

ضلع حافظ آباد میں سلاٹر ہاؤسز کی کمی و سرکاری ریٹس پر گوشت کی فروخت ممکن نہ ہو سکی، پیرا فورس بھی ضلعی انتظامیہ کی طرح کنٹرول ریٹ پر گوشت کی فروخت ممکن نہ بنا سکی،پیرا فورس کی موٹرسائیکل گشت و افسران کے مسلسل دورے بھی قصابوں کو کنٹرول نہ کر سکے، قصابوں کی من مانیاں جاری ہیں گاہک بھی مہنگے داموں گوشت خرید کر رہا ہے سوشل میڈیا پر شکایت کرتے ہوئے پوسٹس نظر سے گزرتی ہیں دوسری جانب گاہک محکموں کو شکایات کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے جس کی بدولت قصابوں و گراں فروشوں کی موجیں لگی ہوئی ہیں.ضلع حافظ آباد میں گائے، بھینس، بچھڑے بڑا گوشت کا سرکاری ریٹ 850 روپے کلو ہے جبکہ فروخت 1000 روپے سے لیکر 1200 روپے کلو ہے بکرا، چھترا چھوٹا گوشت 1750 روپے سرکاری ریٹ ہے جبکہ ضلع بھر میں 2000 روپے کلو سے لیکر 2400 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے قصابوں کا کہنا ہے منڈی سے سستا صحت مند جانور مہنگا ہے سرکاری ریٹ کی فروخت پر فروخت کرنا ممکن نہیں۔

زرائع کے مطابق کچھ دوکانداروں نے ضلعی انتظامیہ، پیرا فورس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے چھاپہ پڑنے اور سرکاری مخبر حضرات جن پر شک پڑ جائے سرکاری ملازم ہے بیمار لاغر قریب المرگ جانور کا گوشت کنٹرول ریٹ دے دیتے ہیں جبکہ تمام قصاب سلاٹر ہاوس جانور لیکر نہیں جاتے،گاؤں دیہات میں گوشت کے میعار پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے ویٹرنری ڈاکٹرز کا جانور کی صحت کی جانچ پڑتال کرنا اور صحت مند گوشت کے لیے موجود ہونا ضروری ہے جانور کو سلاٹر ہاؤس جانور لے جانا ضروری ہے جبکہ اس کا مکمل ریکارڈ رکھنا ضروری ہے.گاہک اگر بروقت سرکاری محکموں کو شکایت کرے تو کنٹرول ریٹس پر فروخت کو ممکن بنایا جا سکتا ہے زندہ جانوروں کا پورے پنجاب میں ریٹ کا تعین بھی ضروری ہے جس سے بہتری ہو سکتی ہے۔

سبزیوں سمیت اشیائے ضروریہ خوردونوش بھی اسی طرح زائد ریٹس کی فروخت جاری ہے جس طرح گوشت کی فروخت جاری ہے حالیہ دنوں میں چینی کی زائد فروخت پر کنٹرول ممکن نہ ہو سکا، ضلع میں ہول سیلر کی چاندی ہو گی پر لوگوں کو کنٹرول ریٹ پر چینی نہ مل سکی. ہول سیل ڈیلرز کا کنٹرول نہ ہونا بھی اہم ہے.دوسری جانب قصابوں کی شکایات اور ان کا حل بھی ضروری ہے تاکہ مسائل کا حل نکلے نہ کہ عوام کے مسائل بڑھیں، جس میں حقائق کی کھوج اور پھر ان کا حقیقی حل سے ایک بہترین معاشرہ بنتا ہے جہاں گاہک دکانداروں کے حقوق کا تحفظ ہو اور درست نشاندہی سمیت مناسب آگاہی سے ممکن ہو سکتا ہے۔

پنجاب حکومت عوام کے ٹیکسوں سے محکموں کے افسران و ملازمین کو تنخواہیں دیتی ہے تاکہ عوام کو ریلیف دے سکیں، اور حکومتی احکامات کی بجا آواری کرتے ہوئے حکومت کی رٹ کو قائم کر سکیں، محکموں کے نزدیک حکومت کے احکامات ہی حرف آخر ہوتے ہیں افسران و ملازمین کے اپنے ذاتی خیالات ان کے فرائض منصبی میں حائل نہ ہوں تو عوام کو ریلیف ملتا ہے اور کسی بھی سیاسی حکمران جماعت کو ثمرات مل پاتے ہیں ورنہ ماضی کی طرح جو بھی اقدامات ہوتے رہے اس کے پورے ثمرات نہ مل سکے.جو تاحال سلسلہ جاری ہے.سوشل میڈیا پر محکموں کی جانب سے عوام کو مناسب آگاہی ضروری ہے اور اگر عوام شکایت کرنے دفاتر کا رخ کرتی ہے تو ان کے لیے افسران کے دروازے کھلے ہونے ضروری ہیں.دربانوں کی ضرورت نہیں جو عوام کو افسران تک رسائی دینے میں بخل کا مظاہرہ کرتے ہیں. عوام کو پیرا فورس سے بڑی توقعات ہیں اس کے ساتھ محکموں کے دروازے عام شہریوں پر کھلے ہونے چاہیے۔

تاکہ عوام بلا روک ٹوک افسران تک اپنی شکایات پہنچا سکیں، جب لوگوں کو ریلیف نہیں ملتا اور سرکاری ملازمین لوگوں کو درست معلومات فراہم نہیں کر پاتے تو عوام افسران تک رسائی چاہتے ہیں اور اپنی بات کو حکام بالا تک پہچانا چاہتے ہوتے ہیں جو سرکاری دربان مذید مشکل بنا دیتے ہیں اور عام شہری جب شکایت لیکر بزریعہ درخواست پہنچتا ہے تو اس کی اپنی تفتیش شروع ہو جاتی ہے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں شکایات کو دبا دیا جاتا ہے اس سے لوگوں کا اعتماد جاتا رہتا ہے.ایک اور اہم بات عام شہری کو حکومت پنجاب تمام معلومات تک رسائی دیتی ہے لیکن محکموں کے افسران معلومات تک رسائی دینے سے ڈرتے ہوئے مبینہ غیر قانونی طریقہ سے پنجاب ٹرانسپرنسی رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ تحت معلومات نہیں دیتے اور قانون موجود ہونے کے باوجود معلومات تو دور کی بات، پوچھنے لگ جاتے ہیں کہ معلومات کیوں چاہیے جبکہ پنجاب ٹرانسپرنسی رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 ایسا پوچھنے سے افسران کو روکتا ہے۔

مزید خبریں