تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
جنوبی ایشیا کی سیاست اور امن و سلامتی کی صورتحال ہمیشہ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات سے جڑی رہی ہے۔ دونوں ممالک نہ صرف مذہب، تاریخ اور جغرافیہ کے رشتوں میں بندھے ہیں بلکہ ان کے درمیان موجود سرحدی تناؤ اور دہشت گردی کے خدشات نے گزشتہ دو دہائیوں سے خطے کو غیر مستحکم کر رکھا ہے۔ 19 اکتوبر 2025ء کو قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں ہونے والا دوحہ جنگ بندی معاہدہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دونوں ممالک کے تعلقات شدید کشیدگی کا شکار تھے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کی قیادت میں پاکستانی وفد اور افغان وزیر دفاع ملا محمد یعقوب کے درمیان ہونے والے 13 گھنٹے طویل مذاکرات نے ایک نئی امید کو جنم دیا ہے کہ خطے میں امن و استحکام کی فضا قائم ہو سکتی ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی دونوں ممالک کی جغرافیائی قربت۔ 1947ء میں پاکستان کے قیام کے بعد افغانستان واحد ملک تھا جس نے ابتدائی طور پر پاکستان کی اقوام متحدہ میں رکنیت کی مخالفت کی تھی۔ 1979ء میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد پاکستان نے افغان مجاہدین کی حمایت کی، جس کے نتیجے میں لاکھوں افغان پناہ گزین پاکستان آئے۔
2001ء میں نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے طالبان حکومت کا خاتمہ کیا، تو پاکستان ایک مرتبہ پھر خطے کی بڑی اسٹریٹجک طاقت کے طور پر سامنے آیا۔ تاہم 2021ء میں جب طالبان دوبارہ کابل پر قابض ہوئے تو توقع کی جا رہی تھی کہ پاک افغان تعلقات بہتر ہوں گے، مگر سرحدی دہشت گردی، ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں اور افغان حکومت کی خاموشی نے اس امید کو دھندلا دیا۔
گزشتہ کئی ماہ سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی جھڑپیں اور دہشت گردانہ حملے بڑھ گئے تھے۔ پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر درجنوں حملے کیے گئے، جن میں فوجی و شہری جانی نقصان ہوا۔ ایسے میں دونوں ممالک کے درمیاں ہونے والے دوحہ مذاکرات ایک اہم سفارتی پیش رفت کے طور پر سامنے آئے۔ یہ مذاکرات قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوئے جہاں پاکستانی وفد کی قیادت وزیر دفاع خواجہ آصف نے کی، جبکہ افغان وفد کی سربراہی وزیر دفاع ملا محمد یعقوب نے کی۔ 13 گھنٹے جاری رہنے والے ان مذاکرات میں قطر کے انٹیلی جنس چیف عبداللہ بن محمد الخلیفہ اور ترکیہ کے سفارتی نمائندوں نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔
معاہدے کی اہم شقیں مندرجہ ذیل ہیں:
پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی (Ceasefire) پر اتفاق ہوا۔
دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی سرزمین کے احترام کا عہد کیا۔
افغان حکومت نے یقین دہانی کرائی کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔
25 اکتوبر کو استنبول میں دوسری ملاقات طے پائی ہے جس میں مستقل نگرانی کا نظام وضع کیا جائے گا۔
قطر اور ترکیہ دونوں ممالک کے مابین امن کے مستقل میکنزم کی تیاری میں مدد کریں گے۔
دوحہ معاہدہ نہ صرف پاک افغان تعلقات میں ایک نیا موڑ ہے بلکہ یہ پورے خطے کے امن کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بجا طور پر کہا کہ یہ “صحیح سمت میں پہلا قدم” ہے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی (Confidence Building Measures) کے عمل کو فروغ ملے گا۔
قطر اور ترکیہ کی ثالثی اس امر کی علامت ہے کہ مسلم دنیا کے اندرونی تنازعات کے حل کے لیے اسلامی ممالک کے درمیان سفارتی تعاون ممکن ہے۔ یہ پیش رفت اس وقت ہوئی ہے جب عالمی طاقتیں جنوبی ایشیا میں بڑھتی کشیدگی پر گہری نظر رکھے ہوئے تھیں۔
اگرچہ دوحہ معاہدہ دونوں ممالک کے لیے ایک امید کی کرن ہے، مگر اس کی کامیابی کے لیے عملی اقدامات اور قابلِ اعتماد نگرانی کے نظام کا قیام لازمی ہے۔ پاکستان کی جانب سے یہ خدشات بجا ہیں کہ افغان سرزمین اب بھی ٹی ٹی پی اور دیگر عسکری گروہوں کے استعمال میں ہے۔ اس لیے استنبول میں ہونے والی آئندہ میٹنگ میں اگر ایک مؤثر Verification Mechanism تشکیل پا گیا تو یہ معاہدہ تاریخ ساز بن سکتا ہے۔
تاہم ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ افغان حکومت نے بارہا ایسے وعدے کیے جن پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ لہٰذا پاکستان کو اپنی دفاعی حکمتِ عملی کے ساتھ ساتھ سفارتی دباؤ اور علاقائی حمایت کو بھی برقرار رکھنا ہوگا۔
اس معاہدے سے سب سے زیادہ مایوسی بلاشبہ بھارت کو ہوئی ہے جو طویل عرصے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان بداعتمادی کو اپنے مفاد میں استعمال کر رہا تھا۔
عالمی سطح پر یہ معاہدہ جنوبی ایشیا میں ایک نئے امن بلاک کی بنیاد بن سکتا ہے، جس میں ترکیہ، قطر اور پاکستان کلیدی کردار ادا کریں گے۔
یہ معاہدہ اگر پائیدار ثابت ہوا تو چین، روس اور وسطی ایشیائی ممالک بھی خطے کے امن و اقتصادی تعاون کے منصوبوں میں شمولیت بڑھا سکتے ہیں، خصوصاً چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے توسیعی منصوبے میں افغانستان کی شمولیت ممکن ہو سکتی ہے۔
دوحہ جنگ بندی معاہدہ بلاشبہ پاکستان اور افغانستان کے مابین ایک تاریخی پیش رفت ہے۔ مگر اس کی اصل کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ کیا دونوں ممالک اپنے وعدوں پر قائم رہیں گے یا نہیں۔ اگر افغان حکومت اپنی سرزمین سے دہشت گرد نیٹ ورکس کا خاتمہ کرنے میں سنجیدہ ہو گئی، تو خطے میں امن، تجارت، اور ترقی کے نئے دروازے کھل سکتے ہیں۔
پاکستان کے لیے یہ معاہدہ ایک امید، حکمت اور احتیاط کی علامت ہے امید امن کی، حکمت سفارت کی، اور احتیاط دفاعی تیاری کی۔
اگر یہ توازن برقرار رہا تو دوحہ معاہدہ نہ صرف پاک افغان تعلقات بلکہ پورے جنوبی ایشیائی خطے کے لیے ایک پائیدار امن کی بنیاد بن سکتا ہے۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ حالات حاضرہ، علم ادب، لسانیات اور تحقیق و تنقیدی موضوعات پر لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے