تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
پاک افغان تعلقات کی تاریخ شروع دن سے ہی کشیدگی، مفاہمت، اعتماد اور بداعتمادی کے متوازی ادوار پر مشتمل رہی ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد جب 1947 میں پاکستان وجود میں آیا تو افغانستان واحد ملک تھا جس نے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی تھی۔ اس تاریخی پس منظر میں دونوں ممالک کے درمیان ایک غیر مستحکم سرحدی تعلق ہمیشہ قائم رہا۔ 1979 میں سوویت یونین کی افغانستان پر جارحیت کے بعد پاکستان نے افغان عوام کی عملی و اخلاقی مدد کی، مگر اسی دوران “مجاہدین” اور بعد ازاں “طالبان” کے اثرات نے پاکستان کی داخلی سلامتی کو بھی براہِ راست متاثر کیا۔ آج جب فیلڈ مارشل سید عاصم منیر افغانستان کی طالبان رجیم سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے خلاف سرگرم پراکسیز کو لگام ڈالے، تو یہ محض ایک سفارتی بیان ہی نہیں بلکہ تاریخی حقائق اور خطے کی سلامتی سے جڑا ایک سنجیدہ انتباہ بھی ہے۔
افغانستان ہمیشہ سے وسطی و جنوبی ایشیا کے درمیان جغرافیائی و اسٹریٹجک پُل کی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر 2001 میں امریکہ کی قیادت میں افغانستان پر حملے کے بعد یہ خطہ عالمی طاقتوں کی کشمکش کا مرکز بن گیا۔ طالبان کی دوبارہ اقتدار میں واپسی (2021) کے بعد پاکستان نے ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کی، لیکن توقعات کے برعکس افغانستان کی سرزمین دوبارہ دہشت گرد گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنتی جا رہی ہے۔ ٹی ٹی پی، داعش خراسان اور دیگر گروہ پاکستان کے اندر بدامنی اور دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کا یہ کہنا کہ “طالبان رجیم کو ان پراکسیوں پر لگام ڈالنی چاہیے جو افغان سرزمین استعمال کر رہی ہیں”، دراصل خطے کی سلامتی اور پاکستان کی خودمختاری کا دفاعی بیانیہ ہے۔
پاکستان نے قیام کے بعد سے اپنے دفاعی اداروں کو جدید خطوط پر استوار کیا۔ افواجِ پاکستان نے نہ صرف روایتی جنگوں میں دشمن کو شکست دی بلکہ دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ میں بھی بے مثال قربانیاں دیں۔ آرمی چیف کے مطابق “ہماری فوج دو دہائیوں تک سب کنوینشنل میدانِ جنگ میں آزمودہ رہی ہے اور اب روایتی میدان میں بھی دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔” یہ بیان پاکستان کی دفاعی حکمتِ عملی “کریڈیبل ڈیٹرنس” کی بنیاد کو واضح کرتا ہے یعنی ایسا دفاعی توازن جو دشمن کو جارحیت سے روکے۔ پاکستان نے نہ صرف جدید ٹیکنالوجی، راکٹ سسٹمز، فضائی صلاحیت اور انٹیلیجنس نیٹ ورک کو بہتر کیا بلکہ اپنی عسکری تربیت میں اخلاقی اور قومی نظریات کو بھی مرکزی حیثیت دی ہے۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے اپنے خطاب میں بھارتی فوجی قیادت کو خبردار کیا کہ “جوہری ماحول میں جنگ کی کوئی گنجائش نہیں”۔ یہ انتباہ اس خطے کے حساس ترین مسئلے یعنی بھارت و پاکستان کے درمیان ایٹمی توازن سے جڑا ہوا ہے۔ دونوں ممالک کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں، مگر پاکستان کا مؤقف ہمیشہ دفاعی رہا ہے۔ بھارت کی جارحانہ پالیسیاں، مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی اور داخلی سطح پر اقلیتوں کے خلاف تشدد نے جنوبی ایشیا کے امن کو غیر مستحکم کر دیا ہے۔
فیلڈ مارشل کا یہ کہنا کہ “ہم اس مقدس سرزمین کا ایک انچ بھی دشمن کے حوالے نہیں کریں گے”، صرف عسکری عزم نہیں بلکہ قومی وحدت، خود اعتمادی اور حب الوطنی کا اعلان ہے۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ مظلوم اقوام کی حمایت پر مبنی رہی ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اپنے خطاب میں نہ صرف کشمیر بلکہ فلسطین کے مسئلے پر بھی پاکستان کے اصولی مؤقف کو دہرایا۔ کشمیر پر بھارت کے ناجائز قبضے کے خلاف پاکستان کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھنے کا اعلان دراصل قائداعظم کے اس نظریے کا تسلسل ہے جس کے مطابق کشمیر پاکستان کی “شہ رگ” ہے۔
اسی طرح فلسطین کے حوالے سے دو ریاستی حل اور القدس شریف کو دارالحکومت قرار دینے کی حمایت، پاکستان کے عالمی ضمیر اور امتِ مسلمہ کے ساتھ وابستگی کو ظاہر کرتی ہے۔
افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان نے توقع کی تھی کہ دہشت گرد گروہوں کو محدود کیا جائے گا، مگر حالیہ مہینوں میں پاکستان کے اندر ہونے والے حملے اس امید کے برعکس ہیں۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کا انتباہ اس بات کا مظہر ہے کہ پاکستان اب مزید خاموش نہیں رہ سکتا۔ تاریخی طور پر پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے استحکام کی حمایت کی ہے۔ افغان مہاجرین کی میزبانی سے لے کر تعمیرِ نو کے منصوبوں تک، پاکستان کا کردار مثبت رہا ہے۔ تاہم اگر افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی ہے تو یہ نہ صرف دوطرفہ تعلقات بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے۔
خطے میں استحکام کے لیے پاکستان نے ہمیشہ متوازن سفارتی پالیسی اپنائی۔ چین کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری اور “چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC)” نے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کو مزید مستحکم کیا۔ اسی طرح سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدہ خاص طور پر حرمین شریفین کے دفاع کی مشترکہ حکمتِ عملی پاکستان کے لیے غیر معمولی اعزاز ہے۔
فیلڈ مارشل کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ “مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کو یقینی بنانے کی جانب ایک قدم ہے۔” اس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان صرف عسکری طاقت ہی نہیں بلکہ ایک “ریجنل سٹیبلائزر” کے طور پر بھی ابھر رہا ہے۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے اپنے خطاب میں “Post Truth Era” کا ذکر کرتے ہوئے خبردار کیا کہ آدھے سچ اور جعلی خبروں سے گمراہ نہ ہوا جائے۔ یہ پیغام نہایت اہم ہے کیونکہ آج کی جنگ صرف سرحدوں پر نہیں بلکہ سوشل میڈیا اور نفسیاتی محاذ پر بھی لڑی جا رہی ہے۔ دشمن قوتیں پاکستان کے عوام اور افواج کے درمیان دراڑ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس کے مقابلے کے لیے قومی یکجہتی، فکری استحکام اور میڈیا شعور کی ضرورت ہے۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا خطاب محض ایک عسکری تقریب کی تقریر ہی نہیں بلکہ پاکستان کے قومی نظریے، دفاعی پالیسی اور خارجہ حکمتِ عملی کا جامع منشور بھی ہے۔ انہوں نے قوم کو یہ یقین دلایا کہ پاکستان کی افواج ہر محاذ پر تیار ہیں، دشمن کے عزائم خاک میں ملا دیے جائیں گے اور عوام و فوج کے درمیان رشتہ ایمان و وطنیت پر قائم رہے گا۔ یہ خطاب اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ پاکستان کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا، بلکہ یہ عزم اور استقلال کی نئی منزلوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ افغانستان، بھارت، کشمیر اور فلسطین کے تناظر میں یہ پیغام واضح ہے کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے مگر اپنی خودمختاری پر کسی سودے بازی کے لیے تیار نہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا بیان ایک جامع عسکری، سفارتی اور فکری دستاویز ہے جو نہ صرف پاکستان کی داخلی و خارجی پالیسیوں کی سمت طے کرتا ہے بلکہ پوری امتِ مسلمہ کے لیے اتحاد، امن اور مزاحمت کا پیغام بھی دیتا ہے۔ افغانستان کی طالبان حکومت کے لیے یہ پیغام ایک دوستی پر مبنی انتباہ ہے کہ پاکستان امن کا حامی ہے مگر اپنی سرزمین پر حملے کبھی بھی برداشت نہیں کرے گا۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ حالات حاضرہ، علم ادب، لسانیات اور تحقیق و تنقیدی موضوعات پر لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے