میرے دوست کا تعلق اٹلی سے رہا ہے۔ زندگی کے کچھ برس وہاں گزارے۔۔ تو یہ انسانی فطرت ہے انسان جہاں جہاں زندگی کے لمحات گزارتا ہے تو وہ اس جگہ سے مانوس ہو جاتا ہے۔
اسی وجہ سے میرا دوست اٹلی کی خبروں پر بھی نظریں جمائے رکھتا ہے۔
آج جب ہماری ملاقات ہوئی تو چہل قدمی کرتے کرتے پارک جا بیٹھے۔
اور میرا دوست بولا۔
دل رنجیدہ ہے کل کے واقعہ سے ،
میں جھٹ سے بولا کل،
کل کیا ہوا؟
دوست بولا کل اٹلی کے شہر ویرونا میں ایک سکول کے ہال کی افتتاحی تقریب تھی۔ موسم خوشگوار، ماحول پُرمسرت اور فضا میں خوشبو بکھری ہوئی تھی۔ یہ تقریب کسی بڑے حکومتی منصوبے کی نہیں بلکہ ایک عام اسکول کے نئے بلاک کے افتتاح کی تھی۔ مہمانِ خصوصی ایک مقامی پادری تھے جنہیں اسکول انتظامیہ نے احتراماً مدعو کیا تھا۔ تقریب اپنے آغاز پر تھی کہ اچانک منظر بدل گیا۔
پادری صاحب نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے، مجمع خاموش ہوگیا، مگر اسی لمحے اگلی صف میں بیٹھے چار مسلمان طلبا نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔ سب چونک اُٹھے۔ لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ تقریب میں ایک لمحے کو سناٹا چھا گیا۔ پھر سرگوشیاں شروع ہوئیں، چہ میگوئیاں بڑھیں اور معاملہ تیزی سے پھیل گیا۔
جب پادری صاحب کی دعا ختم ہوئی، تو اسکول کے پرنسپل کے چہرے پر سخت پریشانی کے آثار تھے۔ وہ آگے بڑھے، طلبا کو سمجھانے کی کوشش کی، مگر بات نکل چکی تھی۔ میڈیا کے نمائندے وہاں موجود تھے۔ چند لمحوں میں واقعہ سوشل میڈیا کی زینت بن گیا۔ سرخیاں بنیں:
“مسلمان طلبا نے پادری کی دعا سننے سے انکار کر دیا”
“ایتھنک ڈائیورسٹی کے نام پر انتہاپسندی”
شہر کے میئر نے فوری بیان دیا: “یہ ہمارے معاشرتی تانے بانے کے خلاف رویہ ہے۔”
امیگرنٹ مخالف جماعتوں نے تو جیسے موقعہ ہی ڈھونڈ رکھا تھا۔ اُن کے ترجمان چیخنے لگے:
“ہم نے پہلے ہی کہا تھا کہ یہ لوگ ہمارے معاشرے میں گھل نہیں سکتے۔ ان کے نظریات یورپی اقدار سے متصادم ہیں۔”
یہ وہ لمحہ تھا جب میرے دوست کی باتوں نے میرے ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا
اور میں نے دوست کو کہا جہاں تک میرا خیال ہے کہ
“ہم مسلمان جہاں بھی جائیں، اپنے دین کی نمائندگی کریں، مگر ایسا رویہ اپنائیں کہ دوسروں کو ہمارا دین انسانیت کا دین محسوس ہو۔”
“اور اگر ہم کسی غیر مسلم ملک میں رہ رہے ہوں تو ہم ان کی مہمان نوازی میں شریک ہو۔ ان کے قوانین، ان کے سماجی آداب، ان کی تہذیب یہ سب ہم پر اخلاقی قرض کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر ہم ان کی زمین پر روزی کماتے ہیں تو ہمارا ہر قدم حسنِ اخلاق سے لبریز ہونا چاہیے۔”
میرا دوست بولا
آج ویرونا کے اس واقعے نے یہ بات سچ ثابت کر دی۔
ان چار طلبا نے شاید یہ سمجھا کہ وہ اپنے دین کے محافظ بن گئے ہیں، مگر حقیقت میں وہ اپنے مذہب کی نرم و شفاف تصویر کو داغدار کر گئے۔
اسلام ہمیں رواداری سکھاتا ہے۔
قرآن کہتا ہے:
“تمہارے لیے تمہارا دین، میرے لیے میرا دین” — مگر یہ آیت نفرت کا نہیں، امن کا پیغام ہے۔
رسولِ اکرم ﷺ نے مدینہ کے عیسائیوں کے وفد کو مسجدِ نبوی میں ٹھہرایا۔ وہ اپنی عبادت کرنے لگے تو حضور ﷺ نے منع نہ کیا۔ اگر نبی ﷺ کا یہ عمل ہمارے سامنے ہو، تو پھر ایک پادری کی دعا سننا کون سی بدعت یا گناہ ہے؟
یہ واقعات یورپ میں اسلاموفوبیا کو مزید بڑھاتے ہیں۔
ان ملکوں میں مسلمان پہلے ہی تعصب، شکوک اور امتیازی رویوں کا شکار ہیں۔
اب اگر خود مسلمان ایسا طرزِ عمل اختیار کریں جس سے تنگ نظری جھلکے تو پھر ہم اپنے بچوں کے لیے کیسا مستقبل تعمیر کر رہے ہیں؟
میں نے دوست کے سوالوں کو سنا تو میں بول اٹھا کہ دوست جیسے تم میرے دل میں موجود سوالات کو زبان دے رہے ہوں۔
میرا دوست نے شکریہ بولا اور اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ “اسلام کی سب سے بڑی تبلیغ تمہارے اخلاق میں ہے، نہ کہ تمہارے شور میں۔”
اذان اگر خوبصورت انداز میں دی جائے تو دلوں کو چھوتی ہے، مگر اگر اذان کے بعد تمہارے رویے سے سختی ٹپکے تو وہ اثر ختم ہو جاتا ہے۔
یورپ کے کئی چرچ ایسے ہیں جنہوں نے اپنے ہال مسلمانوں کے لیے کھول رکھے ہیں تاکہ وہ جمعہ کی نماز ادا کرسکیں۔
کئی عیسائی رضاکار رمضان میں افطاری کے انتظام میں حصہ لیتے ہیں۔
کچھ شہر ایسے ہیں جہاں اذان کی اجازت بھی دی گئی ہے۔
یہ سب اُس معاشرتی وسعتِ قلبی کی علامت ہے جو یورپ کے ڈھانچے میں پیوست ہے۔
مگر جب ہماری باری آتی ہے تو ہم رواداری کی چادر اتار کر انتہاپسندی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔
ہم تاویلیں پیش کرتے ہیں، مذہبی جواز ڈھونڈتے ہیں، اور یوں سمجھتے ہیں جیسے دنیا ہمارے ایمان کی دشمن ہے۔
ایمان صرف نماز اور روزے میں نہیں بلکہ حسنِ سلوک میں ہے۔
اگر چار نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ دعا سننے سے ان کا ایمان کمزور ہو جائے گا، تو شاید انہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ اسلام کا ایمان کمزوری سے نہیں، ظرف سے پہچانا جاتا ہے۔
“ایمان وہ نہیں جو خوف سے بچایا جائے، ایمان وہ ہے جو محبت سے بانٹا جائے۔”
اگر ایک پادری دعا مانگ رہا ہے تو وہ اپنی روایات کے مطابق خدا سے خیر مانگ رہا ہے کسی برائی یا شر کے لیے نہیں۔
ایسے موقع پر کانوں میں انگلیاں ڈالنا نہ اسلام ہے نہ ایمان، بلکہ جہالت کی وہ شکل ہے جو عقل و فہم کے دروازے بند کر دیتی ہے۔
یورپ میں رہنے والے لاکھوں مسلمان اپنے طرزِ عمل سے اسلام کا چہرہ روشن کر رہے ہیں۔
ایک استاد اپنی ایمانداری سے، ایک ڈاکٹر اپنی خدمت سے، ایک تاجر اپنی دیانت سے، اور ایک طالب علم اپنی محنت سے اسلام کا پیغام عام کر رہا ہے۔
مگر جب کوئی ایک واقعہ ایسا پیش آتا ہے تو ان سب کی کاوشوں پر ایک سیاہ سایہ چھا جاتا ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ مذہب کا دفاع نفرت سے نہیں بلکہ کردار سے ہوتا ہے۔
اگر ہم واقعی اپنے دین کے سچے پیروکار ہیں تو ہمیں سب سے پہلے انسانیت کا احترام سیکھنا ہوگا۔
ویرونا کے ان چار نوجوانوں کے لیے دعا ہے کہ وہ سمجھ جائیں
اسلام ان کے کانوں میں انگلیاں ڈالنے کے لیے نہیں آیا، بلکہ دلوں کے دروازے کھولنے کے لیے آیا ہے۔
“جب تم کسی غیر مسلم ملک میں اللہ کا نام لیتے ہو تو تم اس کے نمائندے بن جاتے ہو۔ تمہارا ہر عمل، ہر بات، ہر مسکراہٹ تمہارے دین کا چہرہ ہے۔”
اور مجھے لگتا ہے کہ اگر ہم یہ بات سمجھ جائیں تو یورپ کیا، ساری دنیا ہمارے اخلاق سے متاثر ہوگی۔
ہمیں اپنی روایات سے محبت ہے مگر محبت کا تقاضا یہ نہیں کہ دوسروں سے نفرت کی جائے۔
اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ اختلاف کے باوجود احترام قائم رکھو۔
جو تم سے مختلف ہیں، اُن سے بھی عدل کرو، کیونکہ عدل ایمان کا جوہر ہے۔
پادری کی دعا سننے سے ایمان نہیں جاتا، مگر کسی کے دل میں نفرت بھر دینے سے انسانیت ضرور چلی جاتی ہے۔
میرے دوست کی علمی گفتگو میں وسعت اور چاشنی اس قدر تھی کہ ندیم طاہر مزید کچھ گھنٹے بیٹھ کر وہ سن سکتا تھا۔