جمعه,  10 اکتوبر 2025ء
سچ بولنا بھی جرم ٹھہرا
کالم میں اور میرا دوست

تحریر: ندیم طاہر

میرے دوست کا نام میں نہیں بتاؤں گا، کیونکہ اب کے زمانے میں سچ بولنا بھی جرم ٹھہرا ہے۔ وہ ایک عام سا نوجوان ہے، جیسے آپ یا میں۔ کسی مذہبی جماعت سے اس کا نظریاتی تعلق ضرور ہے، مگر وہ شدت پسند نہیں۔ بس وہ اتنا چاہتا ہے کہ اس ملک میں آئین اور قانون کے مطابق اپنی رائے کا اظہار کر سکے، اپنی بات کہہ سکے، اور اگر کسی فیصلے سے اختلاف رکھتا ہے تو پُرامن احتجاج کر سکے۔ مگر لگتا ہے کہ پاکستان میں اب یہ سب خواب بن گیا ہے. ایسا خواب جو حقیقت بننے سے پہلے ہی کسی اندھی گولی کا نشانہ بن جاتا ہے۔
گذشتہ روز پنجاب پولیس نے ایک مذہبی جماعت کے کارکنوں پر مسجد رحمت للعالمین لاہور میں دھاوا بولا۔ میڈیا پر مکمل بلیک آؤٹ ہے، لیکن سوشل میڈیا کی چند ویڈیوز اور لوگوں کے بیانات سے پتا چلتا ہے کہ متعدد کارکنان زخمی ہوئے اور ایک نوجوان شہید ہوگیا۔ وہی نوجوان میرا دوست تھا۔

وہی جس کے ساتھ میں نے سینکڑوں بار چائے پی، سیاست پر بحث کی، اور خواب دیکھے کہ کبھی ہم اس ملک کو بہتر بنتا دیکھیں گے۔
میں سوچتا ہوں کہ پاکستان میں کسی بھی شہری کے لیے “جمہوری حق” کا استعمال اتنا خطرناک کیوں بن گیا ہے؟

یہ وہی لوگ ہے جنہوں نے کئی سال قبل منہاج القرآن سنٹر جو کہ ماڈل ٹاؤن لاہور میں واقع ہیں پر ریاستی حملہ کیا تھا اور بے گناہ شہریوں کا قتل عام کیا۔
کیا صرف یہی جرم کافی ہے کہ کوئی اپنی آواز اٹھائے؟ اگر کوئی مذہبی جماعت حکومت کی کسی پالیسی سے اختلاف کرتی ہے، تو کیا اس کا جواب لاٹھی، آنسو گیس، یا گولی ہونا چاہیے؟
ہماری پولیس اور انتظامیہ کی تربیت پر کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ ان کے افسران برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک سے کورسز کر کے آتے ہیں۔ مگر جب وطن واپس آتے ہیں تو معلوم نہیں ان کی تربیت کہاں غائب ہو جاتی ہے۔ وہاں تو احتجاج کرنے والا شہری پولیس کا “سبجیکٹ” نہیں بلکہ “پارٹنر” سمجھا جاتا ہے۔ وہاں پولیس کی پہلی ترجیح شہری کے جان و مال کا تحفظ ہوتی ہے، جبکہ یہاں ہر احتجاج خون میں نہلا دیا جاتا ہے۔

میں نے ایک بار اپنے دوست سے پوچھا تھا: “یار، تم لوگ احتجاج میں جاتے ہو تو ڈرتے نہیں؟”

وہ ہنس دیا۔ بولا: “ڈر تو لگتا ہے، مگر خاموش رہنے سے زیادہ خطرناک کام شاید کوئی نہیں۔ جب آپ ظلم دیکھ کر چپ رہتے ہیں تو دراصل آپ بھی اس ظلم کا حصہ بن جاتے ہیں۔”
اس کی بات مجھے آج بھی یاد ہے، خاص طور پر تب جب میں نے سوشل میڈیا پر اس کی خون آلود تصویر دیکھی۔

پاکستان میں ایک عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ انصاف مانگنے نکلے تو اسے ملک دشمن کہہ دیا جاتا ہے۔ کوئی مزدور اپنی تنخواہ مانگے تو شرپسند، کوئی طالبعلم فیس پر احتجاج کرے تو انتشار پسند، کوئی مذہبی جماعت اپنی مذہبی آزادی کا مطالبہ کرے تو شدت پسند۔ ہم سب کو مختلف خانوں میں بانٹ دیا گیا ہے، تاکہ جب کوئی مارا جائے تو باقی لوگ سوچیں: “یہ ہمارا مسئلہ نہیں۔”

میڈیا کا کردار بھی کسی حد تک افسوسناک ہو گیا ہے۔ وہی میڈیا جو کبھی جمہوریت کے لیے نعرے لگایا کرتا تھا، اب خاموش ہے۔ شاید اشتہارات کے خوف سے یا کسی حکم کے تحت، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام کے سامنے سچ چھپایا جا رہا ہے۔
یہ وہی ملک ہے جس کے آئین میں درج ہے کہ ہر شہری کو آزادی اظہار، اجتماع اور احتجاج کا حق حاصل ہے۔ مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ جس نے یہ حق استعمال کیا، اسے خاموش کرا دیا گیا کبھی لاٹھی سے، کبھی مقدمے سے، کبھی گولی سے۔

میں اور میرا دوست اکثر کہا کرتے تھے کہ پاکستان کے اصل دشمن باہر نہیں، اندر ہیں وہ جو اپنی ہی قوم پر بندوق تان لیتے ہیں۔ جو اپنی طاقت کے نشے میں عوام کو رعایا سمجھتے ہیں۔
ہم نے خواب دیکھا تھا کہ ایک دن پاکستان میں کوئی احتجاج اس لیے نہیں توڑا جائے گا کہ وہ حکومت کے خلاف ہے، بلکہ اس لیے روکا جائے گا کہ وہ قانون کے دائرے سے باہر ہے۔ مگر یہاں تو قانون خود طاقت کے تابع ہے۔

میرے دوست کا سوال زندہ ہے: “کیا اس ملک میں سچ بولنے، اپنی بات کہنے، یا اختلاف کرنے کی سزا موت ہے؟”
میں چاہتا ہوں کہ کوئی پولیس افسر، کوئی وزیر، کوئی اہلِ اقتدار اس سوال کا جواب دے۔ وہ جو لندن، پیرس اور نیویارک سے تربیت حاصل کر کے آتے ہیں، وہ بتائیں کہ وہاں احتجاج کو کیسے ڈیل کیا جاتا ہے؟ کیا وہاں بھی اپنے شہریوں پر گولیاں چلائی جاتی ہیں؟ کیا وہاں بھی پولیس کسی مخصوص نظریے کے خلاف صف آراء ہوتی ہے؟
اگر نہیں، تو پھر ہم کیوں ہر بار اپنے ہی لوگوں کو دشمن بنا لیتے ہیں؟

یہ ملک لاکھوں شہداء کی قربانیوں سے حاصل کیا گیا تھا۔ ان لوگوں نے اس لیے خون نہیں دیا تھا کہ آنے والی نسلیں اپنے ہی ملک میں خوف کے سائے میں جیئیں۔ مگر آج حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ عام شہری صرف دو لفظ سن کر کانپ جاتا ہے “پولیس کارروائی”۔ کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اس کارروائی میں اکثر انصاف نہیں، طاقت بولتی ہے۔
میرا دوست اب زمین کے نیچے سو رہا ہے۔ مگر میں جانتا ہوں کہ اس کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی طاقت نے آواز کو دبانے کی کوشش کی، وہ آواز اور بلند ہوئی۔ شاید آج خاموشی ہے، مگر کل یہ خاموشی طوفان بن جائے گی۔

میں چاہتا ہوں کہ ایک دن ایسا آئے جب پاکستان کی پولیس واقعی عوام کی “خدمت” کرے، ان پر تشدد نہ کرے۔ جب کوئی نوجوان اپنے نظریے کے اظہار پر فخر محسوس کرے، خوف نہیں۔ جب میڈیا سچ بولنے سے پہلے اجازت نہ مانگے۔
شاید وہ دن ابھی دور ہے، مگر میرا یقین ہے کہ وہ دن ضرور آئے گا۔
آخر میں، میں اپنے دوست کے الفاظ دہرانا چاہتا ہوں۔
“ہم مر بھی جائیں تو ہماری بات مرنی نہیں چاہیے، کیونکہ سچ کی آواز کبھی نہیں مرتی۔
کیا پاکستان میں جمہوری حق کا استعمال واقعی جرم ہے؟

مزید خبریں