سید شہریار احمد
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ
اس دور میں جینے کی قیمت
یا دارو رسن یا خواری ہے
سابق سینٹر مشتاق احمد جو اس وقت اسرائیل کی قید میں ہیں ان کے اہل خانہ اور خاندان کے دیگر افراد کو مطلع کیا جاتا ہے کہ اب مشتاق احمد کی رہائی ممکن نظر نہیں آتی اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ ان کا انجام عافیہ صدیقی کی طرح ایک نہ ختم ہونے والی قید کی شکل اختیار کر جائے۔
مشتاق احمد کا جرم صرف یہ نہیں ہے کہ وہ گلوبل صمود فلوٹیلا میں سوار ہوئے اور فلسطینیوں کے حق میں اور ان کی مدد کے لیے روانہ ہو گئے
سابق سینٹر کا قصور یہ بھی نہیں ہے کہ اس نے اسرائیل کی مذمت کی تھی، اسرائیل کے ظلم و ستم کی مذمت تو ہم سب کرتے ہیں اور فلسطینیوں پہ ہونے والے ظلم و ستم پر نوحہ خواں بھی ہیں
بلکہ مشتاق صاحب کا قصور یہ ہے کہ وہ پاکستانی حکمرانوں، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر اور اور وطن عزیز میں ہونے والے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات پر اکثر تبرہ بھیجتے رہے ہیں
اور سب سے بڑھ کر مولوی مشتاق احمد کا گناہ یہ ہے کہ انہوں نے بسا اوقات خان اعظم ،عمران خان کے حق میں بیانات دیے ہیں
اور عمران خان کے حق میں بات کرنا اس وقت بادی النظر میں کفر کرنے اور خدا کے ساتھ کسی کو شریک ٹھرانے سے بھی بڑا جرم ہے
لہذا مولوی مشتاق کے بیوی بچوں اور رشتہ داروں کو اب دل کڑا کرنا پڑے گا کیونکہ حکمرانوں اور ملک پر قبضہ مافیا کا سکون اور بھلائی اسی میں ہے کہ سینیٹر مولوی مشتاق احمد اب تاحیات اسرائیل کی قید میں رہیں
گو کہ آپ کو متواتر ایسے مثبت بیانات حکمرانوں اور وزارت خارجہ کے ترجمانوں کی طرف سے پڑھنے اور سننے کو ملتے رہیں گے کہ وہ سینٹر مشتاق کی رہائی کے لیے پوری کوشش کر رہے ہیں۔ جیسا کہ لگ بھگ ہم گزشتہ 20 سال سے عافیہ صدیقی کے لیے سرکاری ترجمانوں کے گھسے پٹے اور روایتی بیانات اور یقین دہانیاں دیکھ رہے ہیں اور ہر حکومت ،ہر سیاسی جماعت ،عافیہ صدیقی کی جلد رہائی کا مژدہ سنا کر اپنے کارکنوں میں اپنی عزت بڑھانے کی کوشش کرتی ہیں ۔
حکمرانوں کا ٹریک ریکارڈ دیکھتے ہوئے مجھے یہ کامل یقین ہے کہ مولوی مشتاق کے لیے کوئی سنجیدہ کوششیں نہ کی جائیں گی بلکہ ہو سکا تو مزید رکاوٹیں پیدا کی جا سکتی ہیں
یہ میرا تجزیہ ہے اور یہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔ حکومتی بیانات سے میرے یقین میں مزید اضافہ ہوتا ہے جس میں وزارت خارجہ کئی بار یہ بیان دے چکی ہے کہ مولوی مشتاق کی رہائی کا عمل آئندہ چند روز میں کامیابی سے مکمل ہو جائے گا اور یہ کہ اردن ،مولوی مشتاق کی رہائی کے لیے مثالی تعاون کر رہا ہے ۔
اس کے علاوہ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے بھی اس حوالے سے بیان داغا تھا کہ بہت سارے اسلامی ممالک سے ہم رابطے میں ہیں کہ مولوی مشتاق کی رہائی کو ممکن بنایا جا سکے۔
اب یہ بات سمجھنے والی ہے کہ گلوبل صمود فلوٹیلا میں سوار بیسیوں لوگ ڈیپورٹ کیے جا چکے ہیں جو اپنے ممالک کو واپس پہنچ گئے ہیں
اور یہ بڑا سادہ کیس ہے کہ مولوی مشتاق کو اسرائیلی عدالت میں پیش کیا جائے اور پھر انہوں نے واپس بھیج دیا جائے، اس میں بہت سارے اسلامی ممالک سے رابطے کرنا ان کا احسان لینا ان کے تعاون کو سراہنا کیا معنی ؟
اگر سینٹر مشتاق کو اسرائیل میں طویل مدت کی سزا نہیں ہوتی تو پھر بھی پاکستان واپسی کے لیے کافی وقت درکار ہوگا
کیونکہ اسی دوران بہت سارے سٹیک ہولڈرز جو مولوی مشتاق کے بیانات، تبصروں اور احتجاج سے تنگ ہیں وہ مولوی مشتاق سے کوئی گارنٹی حاصل کر لیں گے کہ وہ آئندہ حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے لیے کسی قسم کی بیان بازی نہیں کریں گے۔
پھر بھی ہمیں اپنے حکمرانوں سے کوئی اچھی امید نہیں
اور یہ میری ذاتی رائے ہے اللہ نہ کرے مولوی مشتاق کا انجام بھی عافیہ صدیقی صاحبہ جیسا ہو۔
آپ اچھے کام کرنا چاہیں، نیکی کی ہدایت کریں ،لوگوں کو جنت کا راستہ دکھائیں، ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھائیں، مظلوم، غریب !پسے ہوئے طبقوں کو شعور دیں تو اس کی سزائیں تو ملتی ہیں۔ یہاں تو لوگوں نے پیغمبروں کو نہیں بخشا تو آپ کس کھیت کی مولی ہیں؟
میں سوچ رہا ہوں تیرا بھی کہیں میری طرح انجام نہ ہو
تیرا بھی جنون ناکام نہ ہو
تیرے بھی مقدر میں لکھی اک خون میں لتھڑی شام نہ ہو
مجبور ہوں میں مجبور ہوں تو تم
مجبور یہ دنیا ساری ہے
اس دور میں جینے کی قیمت یا دارو رسن یا خواری ہے
الوداع مولوی مشتاق الوداع