هفته,  04 اکتوبر 2025ء
ایس ایچ او کوہسار اور پریس کلب
ایس ایچ او کوہسار اور پریس کلب

دوحرف/رشید ملک

بہت کم ایسا ہوا ہے کہ پولیس کے بارے میں عام شہریوں کے ذہن میں کوئی مثبت خیال آیا ہو یا ہمدردی کی سوچ نے وجود بنایا ہو،دنیا بھر کی پولیس عوام کی نفرت اور غیض و غضب کی مستحق ٹھہرتی ہے وطن عزیز میں یہ معاملہ نہ تو مختلف ہے اور نہ ہی کسی طرح کچھ ہٹ کے ہے بلکہ اگر حقیقت بیان کی جائے تو پاکستان کے اندر پولیس کے بارے میں نفرت اور غیض و غضب کا عنصر کچھ زیادہ ہی ہے،یہ سب اپنی جگہ ٹھیک ہوگا مگر بطور صحافی یا ایک لکھاری کے طور پر میں قطعا اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا کہ کوئی رپورٹ لکھی جائے تجزیہ پیش کیا جائے یا کسی قسم کا کوئی مضمون سپرد قلم کیا جائے تو اس میں حقائق کو جھٹلایا جائے یہ سطور میں انتہائی رنجیدہ اور غم و غصے کہ کیفیت میں لکھ رہا ہوں گزشتہ روز جمعرات کی شام ایک عجیب واقعہ وفاقی دارالحکومت میں رونما ہوا پارلیمانی رپورٹرز ایسوسییشن کی باڈی کے انتخابات کے سلسلہ میں جڑواں شہروں کے صحافی اور پارلیمنٹ کی کوریج کرنے والے اکثر جرنلسٹ پی آر اے کے الیکشن کے سلسلے میں پارلیمنٹ میں مصروف تھے اور اپنے اپنے پسند کے امیدواروں کو ووٹ ڈالنے اور ڈلوانے کے سلسلہ میں ان کی سپورٹ کے لیے پارلیمنٹ میں مصروف عمل تھے کہ اچانک میڈیا لاؤنج میں سراسیمگی پھیل گئی جب یہ خبر وہاں صحافی برادری کو سنائی دی کہ پریس کلب پر وفاقی پولیس کے اہلکاروں نے دھاوا بول دیا ہے اور پریس کلب کے اندر کیفےٹیریا میں جا کر توڑ پھوڑ کی فوٹوگرافرز اور قلم کاروں کے ساتھ پولیس نے درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو حیوانوں کی طرح تشدد کا نشانہ بنایا یہ مناظر الیکٹرانک میڈیا کی ہر سکرین پر اور سوشل میڈیا کے ہر ویلاگ میں خاص طور پر دکھائے جا رہے تھے۔ پوری دنیا میں اور مہذب معاشروں میں یہ مناظر دیکھ کر الگ حیرت اور افسوس کا اظہار کیا جا رہا تھا وطن عزیز میں ہر ذی شعور ششتر تھا کہ آخر ایسی کیا قیامت آگئی تھی کہ پولیس اہلکار پریس کلب کے چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے چنگیز خان کے لشکر تاتار کی طرح پریس کلب کو فتح کرتے ہوئے تخت و تاراج کرنے پر تلے ہوئے تھے ایک منظر دیکھا کہ درجن پر پولیس اہلکار ایک 25 سے 30 سال کے نوجوان کو جانوروں کو سدھارنے کے لیے استعمال ہونے والی موٹی لاٹھیوں کے ذریعے انتہائی وحشت ناک طریقے سے تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے اسی منظر میں ایک چھوٹی سی جھلک نے مجھے کلیجے پر ہاتھ رکھ کر اطمینان کے ایک جھونکے سے گزار دیا یہ منظر کیا تھا کہ کوہسار تھانے کے ایس ایچ او میاں خرم پولیس کے اہلکاروں کی طرف سے نوجوان پر لاٹھیاں برسائے جانے کی اطلاع پر بھاگتے ہوئے پریس کلب کے اندر داخل ہوئے اور با آواز بلند لاٹھیوں سے مسلح نوجوانوں کو پیٹنے والے اہلکاروں کو تمام کاروائی روکنے کے لیے احکامات جاری کر رہے ہیں اور انتہائی تیز رفتاری سے بھاگ کر اس نوجوان کو متشدد پولیس اہلکاروں کے چنگل سے چھڑا کر اپنی بغل میں بچوں کے لیے بے تاب ایک مرغی کی طرح اسے اپنی چھاتی سے لگا کر محفوظ کرتے ہوئے پریس کلب کے ایک کمرے میں لے جاتے ہیں بس یہ وہ منظر تھا جس نے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا اور اندر سے یہ آوازیں سننے کو ملیں کہ ابھی انسانیت ختم نہیں ہوئی ابھی انسانیت کا جنازہ نہیں اٹھا ابھی انسانیت کو دفن نہیں کیا گیا۔میاں خرم مجھے پتہ ہے کہ بہت سارے لوگ تمہارے بارے میں بہت ساری غلط رائے کا اظہار کرتے ہوئے تمہارے سمیت پولیس کو برا بھلا کہہ رہے ہیں میں یہ نہیں کہوں گا کہ پولیس اچھی ہے مگر میں ضرور یہ کہوں گا کہ تم نے جو اس وقت کردار ادا کیا تم نے اس وقت جو فیصلہ کیا وہ قابل قدر ہے۔ تم نے انسانیت کے تابع جس طرح سے بڑے بڑے قدموں سے چلتے ہوئے اور پھر چوکڑیاں بھر کر بھاگتے ہوئے پولیس اہلکاروں کے بے رحمانہ تشدد کے شکار نوجوان کو اپنی چھاتی اور پیٹ کے ساتھ لگا کر بچایا یہ کوئی عام آدمی نہیں کر سکتا اور پھر ایک پولیس افسر کی طرف سے ایسا عمل کیا جانا انتہائی قابل احترام ہے۔ ہو سکتا ہے میرے بعض دوست میری اس تحریر کے بعد میرے بارے میں وہ رائے قائم کریں جو عمومی طور پر کوئی مفاد پرست دوسرے کے بارے میں کرتا ہے مگر میرا نتیجہ یہی ہے کہ پولیس کے ذمہ دار افسران اور اس عوام کو آپ جیسے بہادر اور درد دل رکھنے والے اسٹیشن ہاؤس افیسر پر فخر کرنا چاہیے۔ یہ محض مناظر نہیں تھے جو سوشل میڈیا پر اور ٹی وی سکرین پر دکھائے گئے یہ پوری انسانیت اور پاکستان کے عوام کو جھنجھوڑ دینے کے لیے پوری تاریخ میں الگ ہی مقام پائیں گے۔ مگر اس واقعے میں پولیس کے تشدد میں آپ کی طرف سے ہمدردی کے لیے جو کردار اس نوجوان کو بچانے کے لیے سامنے آیا قابل قدر ہے صحافی اور پولیس کے درمیان ہمیشہ نوک جھوک ہوتی ہے لیکن اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ پولیس اور صحافیوں کے درمیان اچھے تعلقات اور رویے بھی موجود ہیں میاں خرم گزشتہ روز کے واقعے میں جو کچھ آپ نے کیا یقین جانے پولیس کے بارے میں اپنی پوری نفرت کو بھی اگر میں جمع کر لوں تو تمہارے اس کردار کو میں کسی طرح بھی درگزر نہیں کر سکتا جس شدت کے ساتھ تمہارے اندر کی انسانیت نے چھ پولیس اہلکاروں کو اس نوجوان سے دور کیا اور پھر تم نے اس 25 سے 30 سال کے نوجوان کو اپنی باہوں کے حصار میں لے کر اپنے سینے کے ساتھ لگا کر اسے پولیس کے تشدد سے محفوظ بنایا جہاں جہاں ضرورت پڑی میں تمہاری انسانیت کے اس عمل کو لوگوں کو بتاتا رہوں گا کہ پولیس کے اندر حیوانیت ہی نہیں انسانیت بھی موجود ہے جہاں تشدد کرنے والے موجود ہیں وہاں تشدد کا شکار ہونے والے نوجوان کے لیے ڈھال بننے والے پولیس افسر بھی موجود ہیں۔ بات کو مختصر کرتے ہوئے میں اپنے اس مضمون کو سمیٹوں گا کہ مجھے کوئی پرواہ نہیں میں اپنی برادری کے غیض و غضب کا شکار ہی کیوں نہ ہو جاؤں لیکن پھر بھی میاں خرم میں آپ کے جذبہ انسانیت کی ستائش ضرور کروں گا۔ تم انسان ہو تم نے خصلت انسانیت کے مطابق عمل کیا دعا ہے آئندہ بھی اللہ تعالی تمہارے اس جذبے کو سلامت رکھے اور تمہارے اندر کا انسان زندہ رہے۔

مزید خبریں