تحریر: داؤد درانی
پاکستان میں اخبار بینی کا شوق تیزی سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔ وہ عادت جو کبھی ہمارے روزمرہ کا حصہ تھی، آج دم توڑ رہی ہے۔ ایک وقت تھا جب صبح کے ناشتے کی میز پر چائے کے ساتھ اخبار رکھنا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ صاحب لوگ اخبار خریدتے اور عام لوگ کسی دوست یا حجام کی دکان پر بیٹھ کر خبر پڑھ لیتے۔ حجام کی دکان پر سیاسی گفتگو منع ہونے کے نوٹس لگے ہوتے، مگر بحث وہیں سب سے زیادہ ہوتی اور حجام صاحب خود بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔
اس زمانے میں اخبار ایک بڑے شوق کا نام تھا۔ بڑے شہروں کے چوراہوں، بس اڈوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر ہاکر اخبار بیچا کرتے۔ وہ نہ صرف اخبار کے نام پکارتے بلکہ کسی بڑی خبر کو اونچی آواز میں دہراتے تاکہ لوگ متوجہ ہوں اور اخبار خریدیں۔ اہم خبروں پر خصوصی ضمیمے شائع ہوتے جو ہاتھوں ہاتھ بک جاتے۔ یوں اخبار صرف خبر نہیں بلکہ بحث، تبصرے اور شعور کی علامت بن گیا تھا۔
پھر وقت بدلا۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ نے خبر کی دنیا بدل ڈالی۔ اب کوئی واقعہ ہو تو چند لمحوں میں موبائل اسکرین پر آجاتا ہے۔ صبح کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اخبار کے صفحات سکڑ گئے۔ جو اخبارات بیس صفحات پر چھپتے تھے، وہ اب تین چار صفحات پر آ گئے ہیں۔ ضمیمہ جو کبھی خاص موقع پر نکلتا تھا، آج کا اخبار خود ہی ایک ضمیمہ محسوس ہوتا ہے۔
اس زوال نے ہزاروں لوگوں کو متاثر کیا۔ ہاکر اور نیوز ایجنٹ جو روزانہ سینکڑوں، ہزاروں روپے کمایا کرتے تھے، اب تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔ نیوز ایجنسیاں بھی ایک ایک کر کے بند ہو رہی ہیں۔ اخباری صنعت کا یہ بحران روزگار کے لیے بھی ایک خطرہ ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر خبروں کی بھرمار کے باوجود لوگ کسی خبر کو تب تک درست نہیں مانتے جب تک وہ اخبار میں نہ چھپ جائے۔ اس کے باوجود جھوٹی اور سنسنی خیز خبروں کا رجحان اتنا بڑھ گیا ہے کہ جیسے ہی کوئی خبر سوشل میڈیا پر آتی ہے، چند منٹوں میں پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ سچ اور جھوٹ میں فرق ختم ہوتا جا رہا ہے اور ہماری قوم کو سنسنی کی لت لگ چکی ہے۔
یہ زوال ہر جگہ نہیں ہے۔ جاپان اور کئی ترقی یافتہ ملکوں میں آج بھی لوگ اخبار پڑھنے کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ وہاں اخبار اب بھی عزت اور وقار رکھتا ہے۔ پاکستان میں معاملہ مختلف ہے۔ یہاں تعلیمی معیار کمزور ہے اور مطالعے کی عادت عام نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا نے اخبار کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم اخبار بینی کو دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں؟ اس کا جواب ہاں میں ہے، مگر اس کے لیے نوجوان نسل کو مطالعے کی طرف لانا ہوگا۔ سکول اور کالج کے زمانے ہی سے بچوں کو اخبار پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ تعلیمی اداروں میں اگر روزانہ ایک پیریڈ صرف اخبارات کے مطالعے کے لیے مخصوص ہو جائے تو نئی نسل کو خبر کی پہچان اور سچ جھوٹ میں فرق کرنے کی تربیت دی جا سکتی ہے۔
اخبار کا زوال صرف ایک صنعت کا زوال نہیں، یہ ہمارے اجتماعی ذوق اور شعور کے زوال کی علامت بھی ہے۔ اگر ہم نے نوجوان نسل کو اخبار پڑھنے کی عادت نہ ڈالی تو مستقبل میں ہماری رائے سازی صرف سوشل میڈیا پر ہوگی جہاں جھوٹ اور سنسنی کا سیلاب ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ گھروں، سکولوں اور معاشرتی ماحول میں اخبار بینی کی روایت کو زندہ کیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں باخبر اور باشعور شہری بن سکیں۔