حسبِ معمول آج میں اور میرا دوست مانچسٹر کے المشہور چائے خانہ “چاچا چائے” میں بیٹھے تھے۔ میں نے اپنے دوست کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا:
“کیا تمہیں اپنے وطن عزیز پاکستان کی خوشخبری نہ سناؤں؟”
دوست نے چائے کی چسکی آدھی چھوڑی فوراً کہا:
“ضرور، خوشخبری سنانے کے دن آج کل کم ہی آتے ہیں۔”
میں نے بڑے فخر سے کہا:
“پاکستان اور سعودی عرب میں ایک کمال کا معاہدہ طے پایا ہے۔ اگر ایک پر حملہ ہوگا تو دوسرے پر بھی حملہ تصور کیا جائے گا۔ یعنی دونوں ممالک ایک دوسرے کی حفاظت کے ضامن بن گئے ہیں۔”
دوست نے گہری سانس لی اور چائے کا گھونٹ بھر کے مسکرا دیا۔ اس کی مسکراہٹ میں طنز کی کاٹ تھی۔ وہ بولا:
“دیکھو ندیم، میرا سوال یہ ہے کہ اس سے ایک عام پاکستانی اور ایک غریب شہری کو کیا فائدہ ہوگا؟ کیا اس معاہدے کے بعد دال سستی ہو جائے گی؟ آٹے کی قیمت کم ہو جائے گی؟ بجلی کے بل میں کمی ہو جائے گی؟ یا ہمارے بچے سکولوں میں بٹھائے جائیں گے؟”
میں نے چونک کر کہا:
“کم از کم یہ تو ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے کہ ایک بڑی ریاست نے ہمیں اپنی صفِ اول میں کھڑا کر دیا ہے۔”
دوست نے تلخی سے کہا:
“اعزاز؟ اعزاز تب ہوتا جب ہمارے لوگ بھوکے نہ سوتے۔ جب ہسپتال میں مریض کو دوائی مل جاتی۔ جب سیلاب آتا تو حکومت اور دوست ممالک مل کر لوگوں کو بچانے میں دیر نہ کرتے۔ تمہیں یاد ہے ان دنوں پاکستان سیلاب میں ڈوبا ہے، سیلاب جس نے سب کچھ بہا دیا… گھر، کھیت، خواب اور سکون۔ لوگ آج بھی ٹینٹوں میں ہیں، بچے ننگے پاؤں ہیں، اور عورتیں سر چھپانے کے لیے کپڑا مانگ رہی ہیں۔ بتاؤ! کیا اس معاہدے کے تح
ت ایک پر سیلاب دوسرے پر بھی سیلاب تصور ہوگا؟”
میری زبان جیسے بند ہو گئی۔ میں نے کچھ کہنا چاہا مگر الفاظ نہیں ملے۔
دوست نے اپنی بات جاری رکھی:
“بھائی، مجھے بتاؤ سعودی عرب نے ان حالات میں ہمارے لیے کیا اقدامات کیے؟
غریب آج بھی دھکے کھا رہا ہے۔ کیا یہ سب محض اشرافیہ کا فوٹو سیشن تھا؟
جہازوں پر پروٹوکول دیا گیا، سرخ قالین بچھائے گئے تصویریں بنوائیں، وعدے کیے اور واپس چلے گئے۔ ثمر کہاں ہے؟ یہ سوال میں نہیں کر رہا، یہ سوال وہ بچہ کر رہا ہے جو ٹینٹ میں بیٹھ کر کتاب ڈھونڈ رہا ہے۔ یہ سوال وہ کسان کر رہا ہے جس کی زمین بہہ گئی اور آج بھی وہ ہاتھ پھیلا کر مزدوری مانگ رہا ہے۔”
میں نے کہا:
“دوست! یہ بین الاقوامی تعلقات ہیں، ان کے ثمر دیر سے آتے ہیں۔”
وہ ہنس پڑا۔
“ثمر دیر سے آتے ہیں؟ ہمارے ہاں تو ثمر کبھی آتے ہی نہیں۔ یہاں صرف مہنگائی آتی ہے، کرپشن آتی ہے، بے روزگاری آتی ہے۔ حکمران وعدے کرتے ہیں مگر وعدے کبھی وفا نہیں ہوتے۔ سعودی عرب سے اگر واقعی محبت ہے تو وہ ہمارے لیے صنعتی منصوبے لگائے، نوجوانوں کو روزگار دے، زرعی اصلاحات میں مدد کرے، ہمارے قرضے اتارنے میں ہاتھ بٹائے۔ صرف یہ کہنا کہ اگر کسی نے پاکستان پر حملہ کیا تو ہم بھی لڑیں گے،
لیکن جب بھارت نے حملہ کیا تو ہمارے جوان سیسہ پلائی دیوار بن گئے معرکہ بنیان المرصوص میں اللہ نے ہمیں کامیابی دی ۔
لیکن اسوقت صرف پاکستان پر حملہ پاکستان پر ہی تصور ہوا۔
آج جب قطر پر اسرائیل نے حملہ کیا تو عربوں کو ہم یاد آئے۔۔
ہمارا بنیان المرصوص یاد آیا۔۔ہمارے جوانوں کی جوانیاں اور قربانیاں یاد آئی۔۔
تو معاہدہ طے پایا ایک پر حملہ دوسرے پر حملہ ہوگا؟
صیح معنوں میں سعودی عرب پر حملہ پاکستان پر حملہ ہوگا۔
ہمارے نوجوان اپنی جوانیاں قربان کرکے ارض تقدس کا دفاع کریں گے۔
لیکن پاکستان پر سیلاب سعودی عرب پر سیلاب کیوں تصور نہیں ہو رہا ؟؟
میں نے ایک بار پھر دلیل دی:
“تمہیں نہیں لگتا کہ یہ معاہدہ ہمارے دفاع کو مضبوط کرے گا؟”
دوست نے کہا:
“دفاع مضبوط کرنے کے لیے سب سے پہلے عوام کو مضبوط کرنا پڑتا ہے۔ غریب کے گھر چولہا جل رہا ہو، مزدور کی جیب میں عزت کی کمائی ہو، کسان کو اپنی فصل کا پورا دام مل رہا ہو، تب جا کے ملک مضبوط ہوتا ہے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ جس فوج کو ہم اپنی طاقت کہتے ہیں، اس کے جوان بھی انہی غریب گھروں سے نکلتے ہیں؟ جب ان گھروں میں بھوک ہوگی تو جوان کی ہمت کہاں سے آئے گی؟ دفاع صرف ہتھیاروں کا نہیں ہوتا، دفاع اصل میں قوم کا حوصلہ ہے، اور یہ حوصلہ بھوک سے نہیں بڑھتا۔”
یہ سن کر میں خاموش ہو گیا۔ دوست نے چائے کا آخری گھونٹ لیا اور کہا:
“دیکھو، میں ضدی نہیں ہوں۔ اگر واقعی سعودی عرب ہمارے لیے کوئی مثبت قدم اٹھاتا ہے، تو میں سب سے پہلے خوشی مناؤں گا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کاغذی معاہدے سے آگے بڑھ پائے گا یا نہیں؟ عوام ہر روز دیکھتے ہیں کہ کیسے ان کے مسائل پر صرف تصویریں کھینچی جاتی ہیں۔ ہر نیا منصوبہ صرف افتتاحی تختی پر زندہ رہتا ہے۔”
میں نے سوچتے ہوئے کہا:
“شاید یہ وقت بتائے گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔”
دوست نے گہری نظر سے مجھے دیکھا اور بولا:
“وقت ہمیشہ بتاتا ہے، مگر افسوس یہ ہے کہ ہمارا وقت بار بار ایک ہی سبق دیتا ہے: عوام کے سوالات جواب کے بغیر رہ جاتے ہیں۔”
یہ مکالمہ وہی ہے جو آج ہر پاکستانی کے دل میں چل رہا ہے۔ ہر نئی خبر، ہر نیا معاہدہ، ہر نیا وعدہ — سب کچھ خوشنما لگتا ہے، مگر سوال یہی رہتا ہے کہ اس کا فائدہ عام آدمی کو کیا ہوگا؟ اشرافیہ کے چہروں پر خوشی کے رنگ تو نظر آتے ہیں مگر مزدور کے ماتھے کی شکنیں ختم نہیں ہوتیں۔
پاکستان اور سعودی عرب کا تعلق پرانا ہے، مضبوط ہے، اور دونوں ممالک کے درمیان محبت کی ایک تاریخ ہے۔ مگر تاریخ کو صرف تصویروں اور تقریروں سے زندہ نہیں رکھا جا سکتا۔ تاریخ تب زندہ رہتی ہے جب عوام کو اس کا ثمر ملتا ہے۔
کالم کے آخر میں میں اور میرا دوست یہی فیصلہ نہ کر سکے کہ یہ معاہدہ واقعی پاکستان کے لیے نعمت ہے یا محض ایک فوٹو سیشن۔ فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں، کیونکہ اصل جواب عوام ہی دیتے ہیں۔