تحریر: داؤد درانی
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ایک تاریخی دفاعی معاہدہ طے پا چکا ہے جس میں اس بات کا واضح اظہار ہے کہ کسی بھی طرف پر حملہ دونوں کے خلاف حملہ سمجھا جائے گا — ایک ایسا اعلان جو خطے کی جغرافیائی و سیاسی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اس معاہدے کی اہمیت کو کم از کم الفاظ میں سمجھا جائے تو یہ صرف دو ممالک کے مابین باہمی دفاع کی روایت سے آگے بڑھ کر ایک سٹریٹیجک اشارہ ہے: پاکستان اب محض علاقائی کھلاڑی نہیں رہا بلکہ اس کی خارجہ پالیسی ایک روشن سمت اختیار کر رہی ہے جو اس کے قومی مفادات، دفاعی توازن اور علاقائی استحکام کو ایک نئے فریم ورک میں رکھتی ہے۔
مئی 2025 کا تنازع (جو عالمی سطح پر سنگین ردِ عمل کا سبب بنا) نے حقیقتاً کئی نِکتۂٔ انحراف کو جنم دیا۔ اس واقعے نے یہ واضح کر دیا کہ جنوبِ ایشیا میں طاقت کا توازن کس قدر نازک ہے اور نئی صف بندییں کس تیزی سے سامنے آ سکتی ہیں۔ مئی کے واقعات نے عالمی طاقتوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنے تعلقات اور مفادات کا دوبارہ جائزہ لیں — اور اس تناظر میں پاکستان نے خاموشی سے مگر موثر طریقے سے اپنی دفاعی حکمتِ عملی کو فعال رکھا۔
یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ پاکستان نے اس بحران کے دوران وہ کردار ادا کیا جو بعض حلقوں نے ممکن نہیں سمجھا — نہ صرف دفاعی ردِ عمل میں مہارت دکھائی گئی بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کی ساکھ اور قوتِ ارادے کو نئے انداز میں دیکھا گیا۔ اس کا نتیجہ محض میدان جنگ تک محدود نہیں رہا؛ سیاست، سفارت کاری اور علاقائی شراکت داریوں کے نئے مواقع نے جنم لیا۔
تاہم اس کامیابی کا فائدہ اٹھانے کے لیے اندرونی مستحکمّت نہایت ضروری ہے۔ خارجہ پالیسی تبھی پائیدار ہوتی ہے جب اس کے پیچھے ایک مضبوط جمہوری نظام، شفاف سیاسی عمل اور اداروں کے درمیان اعتماد موجود ہو۔ اگر حکومتیں بار بار عارضی ہوں، یا سیاسی تناؤ اور عدم استحکام معمول بن جائے تو بہترین خارجہ پالیسی بھی خَلل کا شکار ہو سکتی ہے۔ ہمارے پڑوسی اور دنیا کے بڑے کھلاڑی بھی اسی استحکام کو دیکھ کر اعتماد کریں گے — نہ کہ زبانی دعووں یا وقتی اتحاد کو مدِّنظر رکھ کر۔
اسی لیے اب وقت ہے کہ تمام سیاسی قوتیں ذمّہ داری کا ثبوت دیں۔ اقتدار کی سیاست کو وقتی مفادات یا شخصی رقابتوں کی بجائے قومی مفاد کے تقاضوں کے مطابق چلایا جائے۔ اگر پارلیمانی عمل میں سنجیدگی، عدلیہ و اداروں کا احترام اور استحکام برقرار رہے تو یہی وہ وقت ہے جب ہمارے سفارت کاری اور دفاعی مفاہمتیں حقیقی معنوں میں ملک کے لیے نتائج لائیں گی۔
سعودی معاہدے کا ایک اور پہلو اقتصادی اور توانائی کے میدان میں بھی اہم اثرات پیدا کر سکتا ہے۔ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کے لیے توانائی اور سرمایہ کاری کے اہم ذرائع فراہم کیے ہیں؛ اب جب سکیورٹی تعاون بھی مضبوط ہوگا تو دونوں ممالک کے درمیان سرمایہ کاری، ٹریڈ اور انفراسٹرکچر کے امکانات مزید کھل سکتے ہیں۔ یہ موقع عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں، روزگار کے مواقع اور ملکی معیشت کی مضبوطی کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
اسی کے ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ عالمی سیاست میں حریف ممالک کی صف بندییں تیزی سے بدل سکتی ہیں۔ دوستیاں مستقل نہیں بلکہ مفادات پر مبنی ہوتی ہیں۔ اس لیے ہمارے فیصلہ سازوں کو مستفید رہتے ہوئے ایک متوازن پالیسی اپنانی چاہیے — جہاں ضروری دفاعی اور سفارتی اتحاد بنیں، مگر علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر کسی بھی ایک جانب داری میں پھنسنے سے گریز کیا جائے جو ہمارے طویل المدتی مفادات کے خلاف ہو۔
آخر میں ایک نکتہ بار بار دہرانا چاہوں گا: پاکستان نے اگر اپنی خارجہ پالیسی کے ذریعے یہ دکھا دیا ہے کہ وہ عالمی میدان میں اپنا وزن بڑھا سکتا ہے تو اس کا اصل امتحان اندرونی سیاسی پختگی ہے۔ ایک مضبوط، شفاف اور متحرک جمہوری روایتی نظام ہی وہ بنیاد ہے جس پر بیرونی شراکت دار اعتماد کریں گے اور یہی وہ ضمانت ہے جو ہمارے قومی مفادات کو مستقل تحفظ دے گی۔
اب وقت ہے کہ سیاسی جماعتیں ذاتی عناد چھوڑ کر قومی مفاد میں متحد ہوں، ادارے اپنے آئینی دائرہ کار میں رہ کر ذمّہ داریاں ادا کریں، اور عوام ایک بامقصد آئینی عمل کی حمایت کریں۔ یہی راستہ ہمیں عالمی سطح پر حقیقی عزت اور خودمختاری دے گا — اور یہی وہ لمحہ ہے جب پاکستان اپنے سفارتی، دفاعی اور اقتصادی مقاصد حاصل کر کے اپنے مستقبل کو روشن کر سکتا ہے۔











