جمعرات,  18  ستمبر 2025ء
کالم میں اور میرا دوست
کالم میں اور میرا دوست

اللہ کریم نے بیٹے سے نوازا اور جب نام تجویز کرنے کا مرحلہ آیا تو وہی ایک تجسّس مجھ میں بھی پایا گیا۔
کہ بچے کا نام یونیک اور انوکھا سا ہو اور دل میں یہ خواہش اور دعا کہ یہ بچہ اپنے نام کے مطابق اپنی زندگی گزارے۔
نام محض پکارنے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اس میں ایک خواب، ایک امید اور ایک روشن مستقبل کی جھلک چھپی ہوتی ہے۔
والدین کے دلوں کی دھڑکن اس نام کے ساتھ جڑ جاتی ہے۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دعا بچے کی شخصیت کا حصہ بن جائے گی۔
روزمرہ کے معمولات میں بہت سے نام دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔
تو سبھی اچھے لگتے تو بہر حال ہم نے ایک چننا ہے۔
تو اسی کشمکش میں کھویا تھا کہ میرے دوست نے آواز دی اور کہا کہ کدھر گم سم ہو کبھی ہم سے بھی مشورہ لیا کرو
میں نے عرض کی کہ بچے کے نام سوچ رہا ہوں کہ انوکھا نام ہو، اسلامی نام
اور وہ اسم با مسمی ثابت ہو۔

“اسم با مسمی”تو میرا دوست جھٹ سے بولا
لیکن کچھ نام ایسے ہوتے ہیں جو اپنی حقیقت اور اپنے پس منظر کے باعث اس دنیا میں اسم با مسمی نہیں بھی ہو سکتے۔
تو میں نے کہا یار کیا ہر نام اسم با مسمی نہیں ہوتا ؟
دوست نے کہا
دراصل کچھ ناموں کے پیچھے ایسی عظیم ہستیاں کھڑی ہیں جن کا مرتبہ اتنا بلند ہے کہ اُن تک پہنچنا کسی عام انسان کے لیے ممکن نہیں۔ مثال کے طور پے نام “حیدر” ہے۔
“حیدر” کا مطلب عام لغت میں “شیر” ہے۔ شیر بہادری، جرات اور شان کا استعارہ ہے۔ لیکن جب اس نام کو تاریخ کے عظیم ترین انسانوں میں سے ایک حضرت علیؑ ابن ابی طالب ع سے نسبت دی جاتی ہے تو اس کی معنویت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
وہ حیدر جس نے خیبر کے قلعے پر للکارا تو دشمنوں کے قدم ڈگمگا گئے۔ وہ حیدر جس نے مرحب جیسے سورما کو شکست دے کر دنیا کو شجاعت کا نیا معیار دکھایا۔ وہ حیدر جس نے مرحب کو خود اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا:
“أنا الذي سمتني أمي حيدرة”
یعنی “میں وہ ہوں جسے میری ماں نے حیدر نام دیا ہے۔”
یہ وہ جملہ تھا کہ مرحب جیسا سورما جسے سن کر گھبرایا تھا
حیدر کرار ع کی گرج میں شجاعت کی گونج، صداقت کی خوشبو اور عشقِ خدا کی روشنی صاف محسوس ہورہی تھی۔
اور حیدر ع کی ماں کا تعارف یوں ہے کہ آپ تاجدار دوجہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محسنہ چچی جان ہے
حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ماں بن کر پرورش کی۔
اور اپنے لخت جگر علی ابن ابی طالب ع کو حیدر نام دیا تھا
اور حیدر کرار ع کی شجاعت صرف میدانِ جنگ تک محدود نہ تھی بلکہ وہ علم، عدل، فصاحت، زہد اور تقویٰ میں بھی بے مثال تھے۔ ان کی بہادری ایسی نہ تھی جو صرف تلوار چلانے میں نظر آئے بلکہ یہ وہ جرات تھی جو حق کی حفاظت کے لیے ہر قربانی دینے پر تیار رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی والد اپنے بچے کا نام “حیدر” رکھتا ہے تو دراصل وہ اپنے لختِ جگر کے لیے یہ دعا کرتا ہے کہ میرا بیٹا علیؑ کے کردار کا پرتو بنے۔ اس کی زندگی میں بہادری ہو لیکن وہ بہادری عدل اور حق کے ساتھ جڑی ہو۔ اس کا علم روشنی بنے لیکن وہ روشنی انسانیت کو سیدھا راستہ دکھانے والی ہو۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں حضرت علیؑ جیسا کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ کوئی بھی انسان کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو جائے، “حیدرِ کرار” کے مرتبے کو نہیں پا سکتا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ “حیدر” ایسا نام ہے جو اسم با مسمی نہیں ہو سکتا۔ یہ نام اپنے اندر ایک ایسی وسعت رکھتا ہے کہ کوئی عام انسان اسے مکمل طور پر اپنے کردار میں نہیں اتار سکتا۔
تاہم یہ بھی سچ ہے کہ اس نام کے ساتھ ایک نسبت اور ایک برکت جڑی ہوئی ہے۔ جو بھی اپنے بچے کا نام “حیدر” رکھتا ہے، وہ دراصل اس عظیم ہستی کے دامن سے وابستگی کا اعلان کرتا ہے۔ یہ اعلان ہے کہ میرا بیٹا بہادری، سچائی اور عدل کی راہوں پر چلے گا۔ یہ نام صرف ایک لفظ نہیں بلکہ ایک دعا، ایک عہد اور ایک پیغام ہے۔
یوں “حیدر” ایسا نام ہے جو اپنی اصل معنویت میں کسی اور کے لیے پورا ہونا ممکن نہیں، لیکن اس نام کے ذریعے والدین اپنے بچوں کی زندگیوں میں روشنی ڈالنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ اور یہی اصل میں نام رکھنے کی سب سے بڑی دعا ہے۔
میرے دوست کی
اتنی تمہید باندھنے کے بعد میرے دل سے حیدر حیدر حیدر کی آوازیں بلند ہوئی۔
اور میں نے اپنے لخت جگر کو “حیدر ” نام دیا۔

مزید خبریں