میرا دوست کہتا ہے: “خدمت میں عظمت ہے۔”
میں نے اس کی بات پر اثبات میں سر ہلایا اور کہا: “بیشک، خدمت کا تعلق مذہب، علاقہ یا نسل سے نہیں بلکہ خالص انسانیت سے ہے۔” انسان کے اندر اگر دوسروں کے لیے درد ہے تو وہ اپنے رب کے قریب ہے، چاہے وہ کسی بھی مذہب یا قوم سے تعلق رکھتا ہو۔ خدمت کا جذبہ انسانیت کی اصل پہچان ہے۔
آج میں اپنے تجربے کی بنیاد پر آپ کو ایک ایسی مثال دینا چاہتا ہوں جس نے مجھے بارہا سوچنے پر مجبور کیا کہ مغرب کی ترقی کے پیچھے صرف سائنس اور ٹیکنالوجی نہیں بلکہ خدمتِ خلق اور انسانیت کی قدردانی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ یہ مثال ہے برطانیہ کے مشہور و معروف NHS ٹرسٹ (National Health Service) کی، جس نے دنیا بھر میں صحت کے میدان میں ایک معیار قائم کیا ہے۔
NHS سے وابستگی کا تجربہ
میں نے مانچسٹر کے رائل ہسپتال میں دو سال تک کام کیا۔ یہ میری زندگی کا نہایت قیمتی اور یادگار تجربہ رہا۔ میں نے وہاں نہ صرف اپنے پیشے کے تقاضے پورے کیے بلکہ انسانیت کے بے شمار رنگ بھی قریب سے دیکھے۔ NHS کے ماتحت ہر ہسپتال میں مریض کو مرکزیت دی جاتی ہے۔ اس کا علاج، اس کی خوراک، اس کی نفسیاتی حالت، حتیٰ کہ اس کے مذہبی رجحانات تک کا خیال رکھا جاتا ہے۔
پاکستان یا دیگر ترقی پذیر ممالک میں اکثر شکایت ملتی ہے کہ مریض کو نظرانداز کر دیا گیا یا علاج کے دوران غفلت برتی گئی، مگر میں نے NHS میں جو دیکھا وہ بالکل مختلف تھا۔ وہاں مریض صرف ایک “کیس” یا “فائل” نہیں ہوتا بلکہ ایک “انسان” ہوتا ہے۔
حلال کھانے کی سہولت
مجھے سب سے زیادہ حیرت اور خوشی اس وقت ہوئی جب مجھے معلوم ہوا کہ مسلمان مریضوں کے لیے حلال کھانے کا انتظام نہ صرف موجود ہے بلکہ یہ مکمل طور پر مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی غیر اسلامی ملک میں اتنی بڑی سطح پر مسلمانوں کے مذہبی تقاضوں کا احترام شاذ و نادر ہی نظر آتا ہے۔ اگر آپ برطانیہ کے کسی بھی بڑے NHS ہسپتال میں داخل ہیں تو وہاں کے مینو میں حلال کھانے کی الگ فہرست موجود ہوتی ہے۔
یہ صرف کھانے کی فراہمی نہیں بلکہ اس بات کا عملی اظہار ہے کہ وہ قومیں انسان کو صرف انسان سمجھتی ہیں۔ ان کے نزدیک مریض کی عزت نفس اور اس کے عقیدے کا احترام بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا اس کے مرض کا علاج۔
مساوات کا اصول
NHS میں کام کرتے ہوئے مجھے ایک اور پہلو نے بہت متاثر کیا۔ وہاں امیر اور غریب کا فرق نہیں کیا جاتا۔ چاہے کوئی مریض کروڑ پتی ہو یا بے گھر، علاج سب کو یکساں سہولتوں کے ساتھ ملتا ہے۔ کسی خاص وارڈ یا خصوصی علاج کے لیے دولت کا ہونا شرط نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ کے عوام NHS کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی سہولت سمجھتے ہیں۔
یہاں پاکستان میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی کے پاس پیسے نہ ہوں تو علاج ادھورا رہ جاتا ہے یا مریض کو اسپتال کے دروازے سے ہی واپس لوٹا دیا جاتا ہے۔ لیکن مانچسٹر میں میں نے دیکھا کہ ہر مریض کے ساتھ وہی رویہ رکھا جاتا ہے جو ایک انسان کا حق ہے۔
میرا دوست اکثر کہا کرتا ہے کہ جب تک خدمت کا جذبہ انسان کے دل میں نہ ہو، وہ کوئی بھی بڑا کام نہیں کر سکتا۔ NHS کے نظام میں یہی جذبہ روح کی مانند گردش کرتا ہے۔ نرس ہو یا ڈاکٹر، صفائی کرنے والا اسٹاف ہو یا انتظامیہ، سب کے چہروں پر مریض کے لیے ایک سکون بخش مسکراہٹ ہوتی ہے۔ کبھی کبھار ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے فرض سے بڑھ کر مریض کو سہارا دیتے ہیں۔
مریضوں کی نفسیاتی دیکھ بھال
ایک اور اہم پہلو جو مجھے NHS میں نظر آیا، وہ مریضوں کی نفسیاتی دیکھ بھال ہے۔ علاج صرف دواؤں اور آپریشن کا نام نہیں بلکہ مریض کے ذہن کو اعتماد اور حوصلہ دینا بھی علاج کا حصہ ہے۔ ہسپتال میں ایسے ماہرین موجود ہوتے ہیں جو مریض اور اس کے اہل خانہ کو تسلی دیتے ہیں، ان کے سوالات کے جواب دیتے ہیں اور ہر ممکن حد تک ان کا خوف دور کرتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات اور مغربی عمل
یہ سب دیکھ کر بارہا دل میں یہ خیال آیا کہ اسلام نے ہمیں خدمتِ انسانیت کا جو درس دیا ہے، وہ اگر ہم اپنی زندگیوں میں عملی طور پر اپنائیں تو آج بھی دنیا کو قیادت دے سکتے ہیں۔ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے کہ “جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔” (المائدہ: 32)۔ NHS کے نظام میں یہی آیت عملی صورت میں نظر آتی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ تعلیمات ہماری اپنی کتاب میں موجود ہیں مگر ان پر عمل دوسروں نے کر دکھایا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثر مریضوں کے ساتھ ہمدردی کے بجائے بدسلوکی ہوتی ہے۔ اسپتالوں میں مریضوں کے رشتہ داروں کو دھکے کھانے پڑتے ہیں، دوائی کے لیے سفارش ڈھونڈنی پڑتی ہے، اور علاج کے لیے جیب خالی کرنی پڑتی ہے۔
فخر کا احساس
مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں نے NHS کے لیے کام کیا۔ وہاں کے اصول، وہاں کی تربیت اور وہاں کی عملی انسان دوستی میرے دل پر نقش ہو گئی ہے۔ میں جب بھی کسی کو یہ بتاتا ہوں کہ میں مانچسٹر کے رائل ہسپتال کا حصہ رہا ہوں تو میرے لہجے میں ایک خاص اعتماد آ جاتا ہے۔
یہ تجربہ مجھے بار بار یاد دلاتا ہے کہ اصل ترقی بڑی عمارتوں یا جدید مشینوں سے نہیں ہوتی بلکہ انسانوں کے ساتھ سلوک سے ہوتی ہے۔ جب ہم ایک دوسرے کو عزت دیں گے، دوسروں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھیں گے، تبھی ہم حقیقی معنوں میں ترقی یافتہ کہلا سکیں گے۔
پیغامِ آخر
آج جب میں اپنے دوست کی بات کو دہراتا ہوں کہ “خدمت میں عظمت ہے” تو دل سے آواز آتی ہے کہ یہی کامیابی کا راز ہے۔ نہ صرف فرد کی بلکہ پوری قوم کی کامیابی کا۔ NHS اس بات کی زندہ مثال ہے کہ جب خدمت کو مقصد بنا لیا جائے تو قومیں دنیا میں نمایاں مقام حاصل کرتی ہیں۔
ہمارے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ ایک غیر اسلامی ملک اپنے مسلمان شہریوں کو اتنی سہولتیں فراہم کرتا ہے، جبکہ ہم اپنے اسلامی ممالک میں بھی اپنے عوام کو بنیادی سہولتیں دینے میں ناکام ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم بھی خدمت کو سیاست سے، نسل پرستی سے اور تعصب سے آزاد کر کے خالصتاً انسانیت کے نام پر اپنائیں۔