تحریر: داؤد درانی
پاکستان کی بدقسمتی دیکھنے کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ پچھلے ستتر برس کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو صاف محسوس ہوگا کہ جب بھی ہم ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں تو کوئی انسانی غلطی یا قدرتی آفت ہمیں دس قدم پیچھے دھکیل دیتی ہے۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جو شاید ہماری قومی پہچان بنتا جا رہا ہے۔ ہماری اپنی پالیسیوں کی ناکامیاں اور بار بار آنے والی قدرتی آفات نے پاکستان کو ایک نہ ختم ہونے والے بحران کے گرداب میں پھنسا رکھا ہے۔
پاکستان میں قریباً ہر دوسرے یا تیسرے سال آنے والا سیلاب نہ صرف تباہی کی نئی داستان رقم کرتا ہے بلکہ سسکتی ہوئی معیشت کو مزید کھوکھلا کر دیتا ہے۔ اس قدرتی آفت سے لاکھوں گھرانے برباد ہوتے ہیں، کھڑی فصلیں ڈوب جاتی ہیں، مویشی مر جاتے ہیں اور بنیادی ڈھانچہ زمین بوس ہو جاتا ہے۔ لیکن افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات پر مرہم رکھنے کے بجائے ہمارے حکمران اپنی ناقص پالیسیوں، بدعنوانی اور لوٹ مار سے رہی سہی کسر بھی نکال دیتے ہیں۔
پاکستان کی معیشت بنیادی طور پر زراعت پر کھڑی ہے۔ ہماری زیادہ تر آبادی اپنی روزی روٹی کا دارومدار کھیتوں پر رکھتی ہے۔ جب سیلاب آتا ہے تو وہ صرف زمین کو نہیں ڈبوتا بلکہ قومی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑ دیتا ہے۔ نتیجتاً، مہنگائی کا طوفان برپا ہوتا ہے، اجناس کی کمی پیدا ہوتی ہے اور ملک مزید قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔ اس دوران ہمارے حکمران، عوام کو سہارا دینے کے بجائے، ہاتھ میں کاسہ گدائی لیے دنیا کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔
چند دن پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سیلاب سے پاکستان میں بڑی تباہی ہوئی ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا اب بھی پاکستان کو خاطر خواہ امداد دینے کے لیے تیار نہیں۔ بلاول کا شکوہ اپنی جگہ درست سہی، مگر کیا کبھی ہمارے حکمرانوں نے یہ سوچا کہ دنیا کی بے حسی کے بجائے ہمیں اپنی کمزوریوں پر غور کرنا چاہیے؟ یہ کتنا شرمناک ہے کہ ہم ہر قدرتی آفت کے بعد بھکاری کی نظروں سے دنیا کو دیکھتے ہیں۔ دوسری جانب کئی ایسے ملک ہیں جو قدرتی آفات کے وقت امداد قبول کرنے کے بجائے خود اپنے وسائل سے حالات کا مقابلہ کرتے ہیں۔ وہ خودداری کو ترجیح دیتے ہیں، جبکہ ہم ہاتھ پھیلانے کو۔
اگر ہماری معیشت حکمرانوں کی عیاشیوں اور لوٹ کھسوٹ کی نذر نہ ہوئی ہوتی تو آج ہم قدرتی آفات کے سامنے اتنے بے بس نہ ہوتے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی معیشت کو اتنا کمزور کر دیا ہے کہ موجودہ سیلاب جیسی آفات کے نقصانات کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل ہی نہیں رہے۔ ہم نے اپنے وسائل کو صحیح سمت میں استعمال نہیں کیا، ہم نے بچت کو کبھی ترجیح نہیں دی، ہم نے قومی اداروں کو مضبوط بنانے کے بجائے انہیں ذاتی جاگیروں کی طرح لوٹا۔
ایک اندازے کے مطابق حالیہ سیلاب نے پاکستان کے بنیادی ڈھانچے، نقدی فصلوں اور معیشت کو تقریباً پانچ ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔ یہ وہی رقم ہے جس کے لیے ہمیں آئی ایم ایف کے سامنے جھکنا پڑا تھا۔ وہی آئی ایم ایف جس نے انتہائی سخت اور ظالمانہ شرائط پر ہمیں قرض دیا اور جس قرض کی بھاری قیمت آج عام عوام مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کی شکل میں ادا کر رہے ہیں۔ یہ پانچ ارب ڈالر کی خطیر رقم، جو ہمارے پاس مشکل سے آئی، ایک ہی قدرتی آفت کی نذر ہو گئی۔ لیکن اس تباہی کے باوجود کیا ہمارے حکمرانوں کی عیاشیاں کم ہوئیں؟ کیا ان کے شاہانہ اخراجات میں کوئی کمی آئی؟ کیا انہوں نے اپنی بدعنوانیوں پر قابو پایا؟ ہرگز نہیں۔ نزلہ پھر حسب معمول غریب عوام پر ہی گرایا گیا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب تک ہم دنیا کے سامنے جھولی پھیلاتے رہیں گے؟ کب تک ہم اپنے وسائل کے صحیح استعمال سے گریز کریں گے؟ کب تک ہم کرپٹ قیادت کو برداشت کرتے رہیں گے؟ دنیا ان قوموں کی مدد کرتی ہے جو خود بھی اپنی بقا کے لیے جدوجہد کرتی ہیں۔ لیکن جب ہم خود کو سنبھالنے کی کوشش ہی نہیں کرتے تو دوسروں سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟
پاکستان کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا ہم ہمیشہ کے لیے بھیک کے کاسے کے ساتھ دنیا کے در پر کھڑے رہیں گے یا پھر خودداری اور خودانحصاری کی راہ اختیار کریں گے۔ یہ وقت ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قومیں امداد سے نہیں، بلکہ اپنے وسائل کے صحیح استعمال اور ایماندار قیادت سے ترقی کرتی ہیں۔ اگر ہم نے اپنی پالیسیوں کو درست نہ کیا، زراعت کو جدید خطوط پر استوار نہ کیا، اداروں کو کرپشن سے پاک نہ کیا اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے مؤثر نظام قائم نہ کیا تو آئندہ بھی ہر سیلاب، ہر زلزلہ اور ہر قدرتی آفت ہمیں دس قدم پیچھے دھکیلتی رہے گی۔
قوموں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ مشکلات کا سامنا کرنے والی قومیں یا تو بکھر جاتی ہیں یا پھر مشکلات ہی انہیں مضبوط بنا دیتی ہیں۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم کس راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔ اگر ہم نے اب بھی اپنی روش نہ بدلی تو آئندہ نسلیں بھی یہی شکوہ کریں گی کہ ہمارے حکمرانوں نے انہیں ایک ایسا پاکستان دیا جو کاسہ گدائی لیے دنیا کے در پر کھڑا تھا۔