تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
افغانستان ایک ایسا ملک ہے جس کی تہذیب، ثقافت اور تاریخ صدیوں پر محیط ہے۔ فارسی، پشتو، ازبک، ترکمانی اور اب چترال سے افغانیوں کے انخلا کے بعد کھوار زبان میں شاعری کی روایات یہاں ہمیشہ سے زندہ رہی ہیں۔ رومانوی شاعری خصوصاً فارسی ادب میں نہ صرف محبت اور حسن کی نمائندگی کرتی ہے بلکہ اس کے ذریعے روحانیت، تصوف اور انسانی جذبات کی گہرائیوں کو بھی بیان کیا جاتا رہا ہے۔
حافظ شیرازی، مولانا روم، عبدالرحمان بابا، خوشحال خان خٹک، محمد شکور غریب، مرزا محمد سیئر اور دیگر عظیم شعرا کی شاعری میں رومانی عناصر موجود ہیں، لیکن ان کا پیغام صرف دنیاوی محبت تک محدود نہیں بلکہ عشقِ حقیقی، اخلاقی اقدار اور انسانی تربیت پر بھی محیط ہے۔ افغانستان میں ماضی کی اسلامی حکومتیں اور علماء ان شعرا کی قدر کرتی آئی ہیں۔
اسلامی تاریخ میں شاعری کی ایک منفرد حیثیت رہی ہے۔ اگرچہ قرآن مجید میں سورۃ الشعراء میں شعرا کے بارے میں تنبیہ کی گئی ہے، لیکن دنیا کی ساری زبانوں کے ادب میں حمد و نعت اور دیگر اسلامی شاعری میں ان شعرا کو سراہا گیا ہے۔
رسول مقبول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی مجلس میں صحابی حضرت حسان بن ثابتؓ جیسے شعرا موجود تھے، جنہوں نے اسلام کے دفاع میں اشعار کہے۔ امام غزالیؒ، ابن قتیبہؒ اور دیگر علماء نے شعر و ادب کو ایک تعمیری فن قرار دیا، بشرطیکہ وہ اخلاقیات، شریعت اور سماجی ذمہ داریوں کے دائرے میں ہو۔
اسلام میں اخلاقی حدود کے ساتھ شاعری کو ممنوع قرار نہیں دیا گیا، بلکہ اسے جذبات و خیالات کے اظہار کا ایک باوقار ذریعہ مانا گیا ہے۔ عشقِ مجازی کو بعض اوقات عشقِ حقیقی کا تمہید بھی قرار دیا گیا ہے۔
افغانستان میں حالیہ قانون کے تحت رومانوی شاعری پر پابندی عائد کرنا، بظاہر اسلامی اخلاقیات کے تحفظ کے لیے کیا گیا قدم دکھائی دیتا ہے۔ اس قانون میں “دنیاوی محبت”، “لڑکے اور لڑکی کی تعریف” اور “دوستی کی ترغیب” جیسے موضوعات کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ افغانستان کے وزارتِ اطلاعات و ثقافت کی جانب سے نگران کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں جو اشعار اور تقاریر کی جانچ پڑتال کریں گی اور خلاف ورزی پر “شریعت اسلامی کے مطابق” سزا دی جائے گی جوکہ خوش آئند اقدام ہے۔
ناقدین یہ سوال اٹھارہے ہیں کہ:
کیا تمام رومانوی شاعری اخلاقی زوال کی نمائندہ ہوتی ہے؟
کیا ادب پر ایسی سخت نگرانی سے تخلیقی آزادی متاثر نہیں ہوگی؟
کیا شریعت کے نام پر ذاتی تشریح کو قانون کا درجہ دینا مناسب ہے؟
طالبان حکومت نے ادب کی آزادی پر قدغن نہیں لگائی ہے بلکہ غیر شرعی اشعار کی مخالفت کی ہے۔ لیکن مخالفین کا کہنا ہے کہ رومانوی شاعری پر پابندی صرف ایک صنفِ ادب پر پابندی نہیں، بلکہ ایک پوری فکری روایت کی سرکوبی ہے۔ ادب معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے، اور شاعری انسان کے اندرونی جذبات، محبت، درد، خوشی اور تصوراتی پہلوؤں کی عکاسی کرتی ہے۔ ایسی پابندی ادیبوں کو خود اظہار سے محروم کر سکتی ہے، جو فکری جمود کو جنم دے سکتی ہے۔
شرعی اصولوں کا محدود اطلاق شاعری پر بھی ہونا چاہئے۔ اگر شاعری میں فحاشی یا بداخلاقی کی ترویج ہو تو یقیناً شریعت میں اس کی گنجائش نہیں، لیکن ہر رومانوی شعر یا مشاعرہ فحاشی کا مظہر نہیں ہوتا۔ “دنیاوی محبت” پر مکمل پابندی اسلام کے اس پہلو سے تضاد رکھتی ہے جس میں فطری جذبات کو تسلیم کیا گیا ہے اور ان کے اظہار کو ایک باوقار انداز میں روا رکھا گیا ہے۔
ہر غزل پر پابندی سے ثقافتی تنوع کا نقصان ہوگا۔ افغانستان کے مختلف لسانی اور ثقافتی گروہ اس قانون سے متاثر ہوں گے، خصوصاً وہ قومیں جن کا شعری ورثہ رومانوی ادب سے جڑا ہوا ہے۔ یہ اقدام ایک یک طرفہ ثقافتی شناخت مسلط کرنے کا تاثر بھی دے سکتا ہے۔
موجودہ قانون کی زبان مبہم اور عمومی ہے۔ “دنیاوی محبت” یا “دوستی کی ترغیب” جیسے الفاظ کی مختلف تشریحات ہو سکتی ہیں، جو ماورائے عدالت کارروائیوں کا خطرہ بڑھا سکتی ہیں۔ اس سے نہ صرف شعرا بلکہ معاشرتی مکالمہ اور تقریر کی آزادی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔
اسلامی معاشرہ تخلیقی اظہار اور اخلاقی اقدار کے درمیان توازن کا قائل ہے۔ افغانستان میں رومانوی شاعری پر مکمل پابندی عائد کرنا نہ صرف تاریخی و ادبی تسلسل کے منافی ہے بلکہ اسلامی اصولوں کی متوازن تشریح کے برخلاف بھی ہے۔ اگر اصلاح مقصود ہے تو اس کا راستہ سخت قوانین سے نہیں، بلکہ تعلیم، تربیت اور تنقیدی مکالمے سے نکلتا ہے۔
ایک بہتر طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ فحاشی و بے حیائی کے خلاف قوانین موجود رہیں، لیکن تخلیقی آزادی کو مناسب حدود میں رہتے ہوئے پروان چڑھنے دیا جائے۔ ایسا ماحول نہ صرف اسلامی روایات کے مطابق ہوگا بلکہ ایک صحت مند، متحرک اور باشعور معاشرے کی بنیاد بھی بنے گا۔