تحریر: ندیم طاہر
میرا دوست اکثر مجھ سے کہتا ہے کہ ہم جس معاشرے میں جی رہے ہیں، وہاں انسانیت کا جنازہ نکل چکا ہے۔ کل شام بھی وہ بہت دل گرفتہ نظر آیا۔ میں نے پوچھا: “کیا ہوا؟” تو اس نے ایک واقعہ سنایا جس نے میرے دل کو بھی چیر کر رکھ دیا۔
وہ کہنے لگا: “کچھ دن پہلے میں نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھی۔ دو سگے بھائی ایک پھل فروش سے معمولی سی بات پر الجھ گئے۔ محض تیس روپے کا جھگڑا تھا۔ دیکھنے میں تو ایک عام سا جھگڑا لگتا تھا مگر کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ یہ جھگڑا دو گھروں کو اجاڑ دے گا، دو زندگیاں ختم کر دے گا، اور ایک ماں باپ کی دنیا اندھیروں میں ڈوب جائے گی۔”
میرا دوست آگے بتانے لگا: “پھل فروش نے جھگڑے کے دوران اپنے کچھ دوستوں کو فون کر دیا جو پاس کے گراؤنڈ میں کرکٹ کھیل رہے تھے۔ وہ سب بلا لیے دوڑے آئے، اور آتے ہی دونوں بھائیوں پر ٹوٹ پڑے۔ چند لمحوں میں وہ مار دھاڑ اتنی بڑھ گئی کہ ایک بھائی موقع پر ہی دم توڑ گیا۔ دوسرا بھائی اپنے مرے ہوئے بھائی کے پاس گر کر مدد کے لیے پکار رہا تھا۔ وہ خون میں لت پت اپنے بھائی کا سر گود میں لیے بار بار دہائی دے رہا تھا کہ کوئی آؤ، کوئی مدد کرو، لیکن وہاں موجود درجنوں لوگ صرف تماشائی بنے کھڑے تھے۔”
میرا دوست کہتا ہے کہ “وہ منظر ناقابلِ بیان تھا۔ مرے ہوئے بھائی کا سر ابھی تک گود میں رکھا تھا کہ پیچھے سے ایک جانور نما انسان بلا لے کر آیا اور دوسرے بھائی کے سر پر پوری طاقت سے دے مارا۔ وہ نوجوان بھی اپنے بھائی کے اوپر گرا اور کومہ میں چلا گیا۔ اگلے دن اسپتال میں وہ بھی مر گیا۔ ایک ماں کے دو جگر گوشے لمحوں میں چھین لیے گئے۔ ایک باپ کے دو بازو کاٹ دیے گئے۔ چھوٹے چھوٹے بچے یتیم ہو گئے۔ ایک گھر کی کفالت کرنے والے بے گناہ قتل ہو گئے، گھر کا سہارا ٹوٹ گیا۔”
اس نے آہ بھرتے ہوئے کہا: “کیا ہم زندہ ہیں؟ کیا یہ معاشرہ انسانوں کا ہے؟ وہاں موجود چالیس پچاس لوگ خاموش تماشائی تھے۔ کوئی آگے بڑھ کر ان بے گناہ نوجوانوں کی جان نہ بچا سکا۔ حیرت ہے کہ کیمرہ والا بھی بس ویڈیو بنانے میں لگا رہا۔ وہ شخص بلا ہاتھ میں لیے للکار رہا تھا، اسے کوئی پیچھے سے پکڑ کر روک کیوں نہ سکا؟ کون سا اس کے ہاتھ میں پستول تھا، یا کوئی تلوار تھی؟ یہ تو لکڑی کا بلا تھا، ہلکی سی مزاحمت کی جاتی تو دو زندگیاں بچ سکتی تھیں۔ لیکن افسوس! وہاں سب بے حس کھڑے تھے۔”
میرا دوست کہتا ہے: “مجھے لگتا ہے ہم ایک جہنم میں جی رہے ہیں۔ ہمارے دلوں سے رحم ختم ہو گیا ہے، ہم انسان کہلانے کے لائق نہیں رہے۔ قرآن میں آیا ہے کہ جس نے ایک بے گناہ کی جان لی، گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔ پھر کیا ان درجنوں تماشائیوں کے دل میں یہ خیال نہ آیا کہ وہ قتل کو روک سکیں؟ یہ سارے لوگ مجرم ہیں، یہ سب قاتل ہیں۔”
میں اس کی باتیں سن رہا تھا تو میرے اندر بھی ایک طوفان اٹھ رہا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ واقعی آج ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم نے دوسروں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے کسی کو مرتا دیکھ لیتے ہیں مگر آگے نہیں بڑھتے۔ ہمارے ہاتھ جمود کا شکار ہیں، ہمارے دل مردہ ہو گئے ہیں۔
میں نے کہا: “یار، ہم صرف قاتل کو ہی قصوروار نہیں ٹھہرا سکتے، وہ ہجوم بھی برابر کا شریکِ جرم ہے۔ اگر ایک شخص بھی آگے بڑھتا، ہمت کرتا تو شاید دونوں بھائی آج زندہ ہوتے۔”
میرا دوست تلخی سے بولا: “جی ہاں، یہ سب قاتل ہیں، قاتل ہیں، قاتل ہیں۔ خاموش تماشائی بھی قاتل ہیں۔ وہ ویڈیو بنانے والا بھی قاتل ہے۔ وہ معاشرہ بھی قاتل ہے جس نے انسان کو اتنا بے حس کر دیا ہے کہ وہ خون بہتے دیکھ کر بھی اپنی آنکھیں پھیر لیتا ہے۔”
میں خاموش ہو گیا۔ میرے پاس جواب نہ تھا۔ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ آخر ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہم کب جاگیں گے؟ کب اپنے اردگرد ہونے والی زیادتیوں کو روکنے کے لیے آواز بلند کریں گے؟ کب دوسروں کی زندگیوں کو اپنی زندگیوں کی طرح قیمتی سمجھیں گے؟
یہ سوال اب بھی میرے ذہن میں گونج رہے ہیں، اور شاید ہمیشہ گونجتے رہیں گے۔