تحریر: داؤد درانی
پاکستان کی معیشت پہلے ہی سست روی کا شکار ہے، لیکن جب اس پر قدرتی آفات کے وار ہوتے ہیں تو یہ زخم مزید گہرا ہو جاتا ہے۔ ہماری قومی تاریخ اس کی گواہ ہے کہ کبھی 2005 کا ہولناک زلزلہ ملک کو جھٹکا دیتا ہے تو کبھی 2010 کے سیلاب نے لاکھوں لوگوں کو بے گھر اور کھربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔ اب تو صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ پاکستان میں سیلاب ایک معمول کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی نے پاکستان کے موسموں کو یکسر بدل دیا ہے۔ جہاں بارش کی ضرورت ہو وہاں خشک سالی دیکھنے کو ملتی ہے، اور جہاں معمول کی بارش کی امید کی جاتی ہے وہاں کلاؤڈ برسٹ اور بے تحاشہ بارشیں تباہی مچا دیتی ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب دریاؤں کے کنارے رہنے والے لوگ ہی سیلاب کی زد میں آتے تھے، لیکن اب بڑے شہروں میں بھی فلیش فلڈز انسانی جانوں کے ضیاع اور اربوں روپے کی جائیداد کے نقصان کا سبب بن رہے ہیں۔ اس سال سوات، بونیر، ہزارہ اور صوابی میں طوفانی بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے شدید ترین اثرات سہنے پر مجبور ہے۔
سیاحت، جو پاکستان کی معیشت کو سنبھالا دینے والا ایک اہم شعبہ بن سکتا تھا، ان قدرتی آفات کے ہاتھوں مسلسل زوال کا شکار ہے۔ جولائی اور اگست کے مہینوں میں جب لوگ ملک کے پہاڑی علاقوں کا رخ کرتے ہیں تو شدید بارشیں، سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ انہیں روک دیتی ہیں۔ نتیجتاً ان علاقوں میں مقامی کاروبار شدید متاثر ہوتے ہیں اور ہزاروں خاندان معاشی مشکلات میں گھر جاتے ہیں۔
عالمی سطح پر بھی ماحولیات کو پہنچنے والے نقصانات کی وجہ سے موسم غیر متوازن ہو چکے ہیں۔ پاکستان ان دس ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے باعث سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران اس سنگین مسئلے کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے اپنی عیاشیوں اور سیاسی کھیلوں میں مصروف ہیں۔ اگر کم از کم ملکی سطح پر اقدامات کیے جائیں تو ان اثرات کو بڑی حد تک کم کیا جا سکتا ہے، لیکن اس ضمن میں کوئی مؤثر پالیسی نظر نہیں آتی۔
ملک میں جنگلات کا رقبہ تیزی سے سکڑ رہا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں درختوں کی کٹائی نے زمین کو ننگا کر دیا ہے جس کے باعث لینڈ سلائیڈنگ اور زمین کٹاؤ کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ درختوں کی کمی کی وجہ سے گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے، اور یہی درجہ حرارت موسمیاتی تبدیلی کو مزید بڑھا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر جنگلات کا تحفظ نہ کیا گیا تو آنے والے وقت میں پاکستان کو خشک سالی، خوراک کی کمی، پانی کے بحران اور ناقابلِ برداشت موسموں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک میں فوری طور پر جنگلات لگانے کے منصوبے شروع کیے جائیں۔ یہ کام محض زبانی دعوؤں اور اشتہاری مہمات سے نہیں ہوگا بلکہ عملی طور پر “جنگی بنیادوں” پر کیا جانا چاہیے۔ درختوں کی ناجائز کٹائی کو سنگین جرم قرار دینا ہوگا، اور اس کے مرتکب افراد کو سخت ترین سزائیں دینا ہوں گی۔ اگر ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو ایک قابلِ رہائش پاکستان دینا ہے تو یہ اقدامات ناگزیر ہیں۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم بطور قوم یہ تسلیم کریں کہ موسمیاتی تبدیلی ایک حقیقت ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے فوری اور سخت فیصلے لینے ہوں گے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان کی زرخیز زمین بنجر ہو جائے گی، پہاڑ ریت کے ٹیلوں میں بدل جائیں گے اور ہم ایک لق و دق صحرا میں رہنے پر مجبور ہوں گے۔