جمعرات,  04  ستمبر 2025ء
کاش نیر علی!۔۔۔۔ایف آئی آر
سرکاری خبر رساں ادارہ کرپشن اور ایف آئی آر!

دو حرف/ رشید ملک

پریس کلب میں میرا ایک ہردلعزیز لیڈر اس وقت اہم ذمہ داریوں پر دسترس رکھتا ہے، اور اس نے آج ایک بڑی تہلکہ خیز پوسٹ اپنے فیس بک اکاؤنٹ کی زینت بنائی ہے جس میں پریس کلب کی سیکرٹری میری فیورٹ قائد نیر علی ،سابق وائس پریذیڈنٹ مائرہ عمران جن کے ساتھ پریس کلب کی باڈی میں کام کرنے کا مجھے بھی شرف حاصل ہے اس وقت غالباََ بڑے بھائیوں کی طرح پیار کرنے والے محترم شکیل انجم صدر تھے،موجودہ جوائنٹ سیکریٹری پریس کلب جو میرے ایک بہت پیارے دوست کی دختر نیک ہیں۔ ایک عرصے بعد جب مجھے معلوم ہوا کہ یہ فلاں دوست (نام جان بوجھ کر نہیں لکھ رہا) کی بیٹی ہیں،تو میں نے سوشل میڈیا کے ذریعے اس ننھی گڑیا کو متعدد بار درخواست کی کہ مجھے اپنے والد محترم میرے دوست کا موبائل فون نمبر عطا کردیں نہ جانے ہماری گڑیا نے کن وجوہات کی بناء پر جواب دینا در خور اعتنا سمجھتے ہوئے احترام و تکریم کے تقاضا کو بھی ملحوظ رکھنا مناسب نہ سمجھا کوئی بات نہیں،اس کے ساتھ ساتھ میری آئیدیل اور متحرک لیڈر سابق جوائنٹ سیکرٹری انچارج پریس کلب کیمپ آفس پنڈی شکیلہ جلیل کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت ایف آئی اے میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ مقدمے کی پوری روداد موصول ہونے کے بعد اس پر کسی مناسب وقت پر بھر پور بات کی جائے گی،لیکن مدثر چوہدری کی پوسٹ میں تہلکے کے ساتھ فکر انگیزی یہ ہے کہ ایف آئی آر صرف ان چار مستور پر نہیں بلکہ 175 خواتین صحافیوں پر درج کیئے جانے کی خبر دی گئی ہے۔ اللہ جانے مدثر چوہدری کے پوسٹ شیئر کرنے کا مقصد سنسنی پھیلانا ہے،خواتین کو خبردار کرنا ہے ان کو خوف کا شکار کرنا ہے یا پھر پریس کلب کی قیادت کے لیے ایک چیلنج اور ان کی ناکامی کا چرچا کرنا ہے یا برادری کو پیکا ایکٹ کو صحافیوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کے سد باب کی دعوت دینا ہے۔ سچی بات یہ ہےچوہدری صاحب مجھے آپ کی پوسٹ پڑھ کر بہت افسوس ہوا ہے۔ اسی لیئے میں خاص طور پر تاریخ کا ایک حوالہ آپ کی خدمت میں اور نیر علی سیکرٹری پریس کلب سمیت تمام قائدین کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔

طارق بن زیاد کے فتح کیئے گئے اندلس کو جب بعد کے نااہل حاکم نے الفانسو کے سامنے سرنڈر کیا تو ایک شرط رکھی کہ مجھے اور میری فیملی کو فرار کیلئے محفوظ راستہ دیا جائے یہ شرط الفانسو کے جواب سے پہلے ہی اس کی ملکہ نے مان لی، اور ھسپانیہ میں تعمرات کے نادر شاہکار پینوراما محلات کی چابیاں الفانسو اور اس کی ملکہ کے حوالے کرکے تقریباً تین سو سال کی حکومت چھوڑ کر جب بھاگتے ہوئے رات کو اندلس کے انتہائی دلکش پہاڑ کی چوٹی پر قدرتی طور پر بنی چٹان کی گود میں ھسپانیہ کا آخری فرمانروا اپنے محلات کے خوبصور مناظر کے آخری بار نظارے کرتے یوئے دھاڑیں مار مار کر زارو قطار رونے لگا تو یہ منظر دیکھ کر اس اجڑے ہوئے حاکم کی ماں اٹھی اور اپنے بیٹے کا سر اپنی گود میں رکھ کر اس میں اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں کی پوروں کو آہستہ اہستہ پھیرنے لگی نرم گداز اور مخملی انگلیوں سے بادشاہ کو قدرے سکون ملنے لگا اور دھیرے دھیرے اس کی ہچکیاں رک گئیں اور اس کی چشم تر سے جاری طوفان تھمنے لگا تب ماں نے اس سے مخاطب ہوتے ہوئے ایک تاریخی جملہ کہا” اے میرے راج دلارے جب محلات کی حفاظت بہادروں کی طرح قوت بازو سے نہ کر سکیں تو پھر ان کے چھن جانے پر دامن کوہ میں نشست پرداز ہوکر بزدلوں کی طرح آنسو بہانے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا” واہ واہ میں قربان جاؤں اس ماں کے میں صدقے میں واری اس ماں کے جس نے نہ جانے کتنی ہمت کتنا حوصلہ جمع کر کے اپنی کوک سے پیدا کیے ہوئے اپنے ناہل بیٹے کو دلاسہ دیتے ہوئے کتنے بھاری اور تاریخ کی کتابوں میں امر ہو جانے والے جملے ادا کیے مدثر چودری کی پوسٹ نے مجھے کسی حد تک شرمندہ کیا ہے اسی لیے میں نے یہ تاریخی واقعہ کا ایک پہلو اپنے کالم کی وساطت سے اپنے ہم عصروں اور قائدین تک پہنچانے کی جسارت کی ہے اسے میری خطا تصور کیا جائے تو مجھے پیش کی معافی دے دی جائے اگر اسے ایک سبق اموز حوالہ تصور کیا جائے تو پھر کوئی ٹھوس حکمت عملی وضع کر لی جائے میری اطلاع کے مطابق پریس کلب کی سیکرٹری صاحبہ نے خود ایک سابق میاں بیوی کو پریس کلب کی ممبرشپ یہ نام کی جس پر اس وقت بھی کئی اعتراضات اور سوالات اٹھائے گئے جنہیں سننا یا اہمیت دینا در خور اعتنا سمجھا گیا بہرحال اختصاریے کے ساتھ نفس مضمون کی طرف بڑھتے ہیں کہ یہ سابق میاں بیوی سابق ہونے سے پہلے اس پریس کلب کے بڑے متحرک اور انکھ کا تارا ممبر تھے مگر سابق ہونے کے بعد ان میں سے ایک فریق نے اپنے ساتھ ناروا سلوک اختیار کیے جانے سے متعلق شکایت پر مبنی درخواست پریس کلب کےسپرد کی اس درخواست میں حراثیت جیسے سنگین الزامات بھی شامل تھے پریس کلب کی قیادت نے ایک طویل اجلاس کے بعد غور و خوض کے نتیجہ کے طور پر اس درخواست کے مندر جات کے حقائق جاننے کے لیے ایک انکوائری کمیٹی میری بڑی بہن فوزیہ شاہد کی سربراہی میں قائم کی گئی اس پروسیڈنگ کے بعد بذریعہ سوشل میڈیا پریس کلب کی قیادت اور جملہ کمیٹی کے اراکین کو مواد ارسال کیا جاتا رہا اور پھر یہی فراہم کرتا مواد پیکا ایکٹ کے تحت مخالف فریق کی طرف سے پریس کلب کی قیادت اور چار ممبر خواتین کے ایک خلاف ایف ائی اے میں ایف ائی ار کے اندراج کا موجب بنا اس کی نوبت کیوں ائی معلوم ہوا کہ انکوائری کمیٹی نے طویل عرصہ انکوائری کو جاری رکھا اور مکمل ہونے کے بعد تا حال اس کی رپورٹ نہ جانے کن وجوہات کی بنا پر جاری نہیں کی اگر اس جگہ پر میں انصاف میں تاخیر نا انصافی کے مترادف جیسے الفاظ کو نہ بھی استعمال کروں تو ایف ائی اے میں درج یہ مقدمہ صحافی برادری قائدین اور ارباب اختیار کے لیے کثیر الجہتی سوچ اور فکر چھوڑ رہا ہے احباب صحافت میں اپ پریس کلب اور شہر کے تمام ایسے مقامات جہاں اس شہر کے پھنے خان صحافیوں اور خبر پر سبقت رکھنے والے بڑے بڑے رپورٹر لکھاریوں کی نشستیں ہوتی ہیں موضوع سخن یہی واقعہ سننے کو ملتا ہے داستان عجیب ہیں حقائق حیران کن ہیں اور قائدین کے کریم یا ان سے دوری رکھنے والے ہمدرد اور مخالفین سبھی اپنی گفتگو کے اختتام کے لیے اس مختصر حرف کاش کا سہارا لیتے ہیں بالکل درست ہے کہ کاش اس سابق میاں بیوی جوڑے کی پریس کلب کو ممبر شپ نہ دی جاتی کاش ایک فریق کی درخواست قبول نہ کی جاتی کاش اس پر انکوائری کمیٹی نہ بنائی جاتی کاش کمیٹی بروقت رپورٹ مرتب کر لیتی اور کاش اس رپورٹ کو بروقت جاری کر دیا جاتا کاش اس پر بروقت راست فیصلہ کر لیا جاتا تو شاید اس صورتحال سے بچا جا سکتا تھا لیکن اب ہمارے پاس اگر بچا ہے تو کاش ہے کاش زمانے کی لغات میں لفظ کاش نہ ہوتا ہمیں اپنے قائدین کے خلاف ایف ائی آر کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور کاش پریس کلب قیادت کے مخالفین کو تند و تیز تنقید کا موقع نہ ملتا کاش کاش کاش۔

مزید خبریں