هفته,  16  اگست 2025ء
بجلی کا بحران اور حکمرانوں کی بے حسی
پاکستان کی معاشرتی تباہی اور دہشت گردی کا آغاز

تحریر: داؤد درانی

پاکستان ان چند ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں قدرت نے بے پناہ وسائل عطا کیے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ان وسائل سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ہم نے ہمیشہ مہنگے اور غیر مؤثر طریقے اختیار کیے۔ آج ملک کا ہر شہری بجلی کے بحران سے پریشان ہے۔ ایک طرف بجلی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں تو دوسری جانب چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں دن رات طویل لوڈشیڈنگ نے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔

پاکستان میں بجلی بنانے کے ذرائع میں سب سے زیادہ انحصار تیل اور گیس پر ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک آہستہ آہستہ ان مہنگے اور ماحولیاتی طور پر نقصان دہ ذرائع سے دور جا رہے ہیں جبکہ ہم ان میں الجھے ہوئے ہیں۔ تیل اور گیس سے پیدا ہونے والی بجلی کی اصل قیمت کہیں اور ہے لیکن اس کے نتیجے میں صارفین کو جو بل موصول ہوتے ہیں وہ ان کے گھریلو بجٹ کو چیر پھاڑ دیتے ہیں۔ اس صورتحال سے صرف اور صرف Independent Power Producers (IPPs) کو فائدہ پہنچ رہا ہے جو اپنے معاہدوں کے ذریعے اربوں روپے کماتے ہیں، جبکہ عام آدمی بدستور اندھیروں اور مہنگائی کے شکنجے میں پھنسا ہوا ہے۔

اگر حکومت واقعی سنجیدہ ہو تو پاکستان میں سستی اور ماحول دوست بجلی پیدا کرنے کے بے شمار مواقع موجود ہیں۔ بلوچستان کی ساحلی پٹی پر ہواؤں سے ہزاروں میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح دریاؤں پر چھوٹے بڑے ڈیم بنا کر نہ صرف سستی بجلی حاصل کی جا سکتی ہے بلکہ پانی کے ذخائر میں اضافہ بھی ممکن ہے، جو زراعت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن افسوس کہ ہماری حکمران اشرافیہ کو ڈیم بنانے یا متبادل توانائی کے منصوبوں میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ان کا اصل مقصد صرف وقتی حل اور کاغذی منصوبوں کے ذریعے اپنی جیبیں بھرنا ہوتا ہے۔

دنیا آج سولر انرجی کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے، لیکن پاکستان میں جو لوگ سولر پینلز لگا کر اپنی ضرورت پوری کر رہے ہیں یا اضافی بجلی بنا کر حکومت کو بیچ رہے ہیں، ان کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔ بجائے اس کے کہ سولر پینلز کو سبسڈی دی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اپنی بجلی خود پیدا کر سکیں، ان پر بھاری ڈیوٹی لگا کر عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اس پالیسی کے نتیجے میں بجلی کا بوجھ نہ حکومت کے کندھوں سے کم ہو رہا ہے نہ عوام کے۔

پاکستان میں ہائیڈرو، سولر اور ونڈ انرجی کے اتنے مواقع ہیں کہ اگر سنجیدگی سے منصوبہ بندی کی جائے تو نہ صرف ملک کو سستی اور وافر بجلی دی جا سکتی ہے بلکہ خطے کے دوسرے ممالک کو بھی بجلی برآمد کی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو مخلص اور دور اندیش ہو۔ افسوس کہ اس وقت جو حکمران طبقہ ہمارے اوپر مسلط ہے، اس کا فوکس صرف ایک دوسرے سے لڑنے، اپنے مخالفین کو کچلنے اور اپنی تجوریاں بھرنے پر ہے۔

بجلی کا بحران صرف بجلی کا بحران نہیں، یہ معیشت کا بحران بھی ہے۔ صنعتیں بند ہو رہی ہیں، چھوٹے کاروبار ختم ہو رہے ہیں اور نوجوان بیروزگار ہو رہے ہیں۔ اگر فوری طور پر ملک میں متبادل توانائی پر توجہ نہ دی گئی تو آنے والے برسوں میں حالات مزید خراب ہوں گے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہمیں ایک جامع توانائی پالیسی بنانی ہو گی جو پانی، سورج اور ہوا کی طاقت سے بھرپور فائدہ اٹھا سکے۔

پاکستانی عوام اس قابل ہیں کہ وہ مشکلات کا مقابلہ کریں، لیکن شرط یہ ہے کہ قیادت خلوص نیت سے فیصلے کرے۔ بصورت دیگر لوڈشیڈنگ، بھاری بل اور مہنگی بجلی ہماری آنے والی نسلوں کا بھی مقدر بنے رہیں گے۔

مزید خبریں