جمعه,  15  اگست 2025ء
سیاسی دشمنی اور جمہوریت کا المیہ
پاکستان کی معاشرتی تباہی اور دہشت گردی کا آغاز

تحریر: داؤد درانی

پاکستان میں سیاسی دشمنی کی روایت اتنی پرانی ہے کہ آزادی کے 77 برس بعد بھی یہ بدقسمت رواج ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ ہے۔ جمہوریت، جو عوامی رائے، برداشت اور مکالمے پر کھڑی ہوتی ہے، یہاں پنپ ہی نہ سکی۔ ہمارے سیاستدانوں کا اولین ایجنڈا اقتدار میں آتے ہی مخالفین کو کچلنا رہا ہے—چاہے یہ الزام تراشی کے ذریعے ہو، جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل کر یا عدالتوں سے نااہلی کے فیصلے لے کر۔

آزادی کے فوراً بعد ہی اس سیاسی تعصب کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ اُس وقت صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) میں مسلم لیگ مخالف جماعت کی حکومت کو زبردستی برطرف کر دیا گیا۔ یہ رویہ جمہوریت کے اصولوں کے سراسر منافی تھا، مگر بدقسمتی سے یہ سلسلہ رکنے کے بجائے بڑھتا چلا گیا۔ کوئی بھی حکمران اپنے مخالف کے وجود کو برداشت کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک بڑا حصہ مارشل لاء کی نذر ہو گیا۔

ذوالفقار علی بھٹو، جو خود کو جمہوریت کا علمبردار کہتے تھے، اپنے اقتدار میں مخالفین کو دبانے کے لیے تمام ممکنہ حربے استعمال کرتے رہے۔ پھر جنرل ضیاء الحق کی طویل آمریت کے بعد جب جمہوریت بحال ہوئی، تو توقع تھی کہ سیاسی رویوں میں کچھ بلوغت آئے گی، لیکن پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے ادوارِ حکومت میں زیادہ وقت ایک دوسرے کو جیل میں ڈالنے، جلا وطن کرنے اور بدنام کرنے پر صرف کیا۔

2006ء میں جب دونوں بڑی جماعتوں نے جنرل مشرف کے دور میں ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ پر دستخط کیے، تو ایک امید کی کرن جاگی کہ شاید اب سیاسی انتقام کا سلسلہ تھم جائے گا اور جمہوری ادارے مضبوط ہوں گے۔ لیکن یہ خوش فہمی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔ کچھ ہی برس بعد عمران خان کی صورت میں ایک نئی سیاسی قوت سامنے آئی، جس کا بنیادی نعرہ ہی مخالفین کو ’’رگڑا دینے‘‘ کا تھا۔ اقتدار ملنے پر انہوں نے اس بیانیے پر نہایت جارحانہ انداز میں عمل کیا۔ مگر وقت نے پلٹا کھایا اور اب خود عمران خان اسی سیاسی انتقام کا نشانہ بن چکے ہیں، جس کا سلسلہ وہ دوسروں کے خلاف جاری رکھے ہوئے تھے۔

پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط بنیادیں ملنے کے بجائے ہر دور میں کمزور کیا گیا۔ سیاسی مخالف کو برداشت نہ کرنا اور اسے ہر ممکن طریقے سے ختم کرنے کی کوشش، ایک ایسی بیماری ہے جو ہمارے نظام کو اندر سے کھوکھلا کر رہی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف عوام کا جمہوریت پر اعتماد کم کرتا ہے بلکہ ریاستی اداروں کو بھی سیاست کی دلدل میں کھینچ لاتا ہے۔

اصل سوال یہ ہے کہ یہ مکروہ کھیل کب ختم ہوگا؟ کیا کبھی ایسا وقت آئے گا جب ہم سیاسی اختلاف کو دشمنی کے بجائے ایک جمہوری حقیقت کے طور پر قبول کریں؟ جب اقتدار کا حصول عوامی خدمت کے لیے ہوگا، نہ کہ مخالفین کو ختم کرنے کے لیے؟ جب سیاسی جماعتیں اپنے منشور اور کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ لیں گی، نہ کہ دوسروں کو بدنام کر کے؟

جمہوریت صرف انتخابات کے انعقاد کا نام نہیں۔ یہ ایک سوچ، رویے اور برداشت کا کلچر ہے۔ اگر ہم نے اس حقیقت کو نہ سمجھا تو ہماری سیاست اسی انتقامی دائرے میں گھومتی رہے گی، اور ہم آنے والے کئی برسوں تک یہی سوال دہراتے رہیں گے: پاکستان میں صحیح معنوں میں جمہوریت کب قائم ہوگی؟

مزید خبریں