تحریر: داؤد درانی
دنیا کی سیاست ہمیشہ سے طاقت، مفادات اور اثر و رسوخ کے گرد گھومتی آئی ہے۔ طاقتور ممالک اکثر اپنے اصول اور نظریات کمزور ممالک پر نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر جب وہی اصول ان کے اپنے مفادات کے خلاف ہوں، تو فوراً نظرانداز کر دیے جاتے ہیں۔ موجودہ عالمی حالات میں امریکہ کی پالیسی اس کی ایک نمایاں مثال ہے، جہاں ایک طرف وہ بھارت پر روس سے تیل خریدنے پر اعتراض کرتا ہے، اور دوسری طرف خود اسرائیل کی کھلے عام عسکری اور مالی مدد کر رہا ہے، حالانکہ اسرائیل فلسطینی عوام پر ظلم و ستم کی انتہا کر رہا ہے۔
امریکہ کا اعتراض یہ ہے کہ بھارت روس سے تیل خرید کر روسی معیشت کو سہارا دے رہا ہے، جبکہ روس یوکرین پر فوجی جارحیت میں مصروف ہے۔ امریکی مؤقف کے مطابق یہ اقدام بھارت کو ایک ایسے فریق کے قریب کر دیتا ہے جو بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہی اصول امریکہ پر لاگو نہیں ہونا چاہیے؟ اگر کسی ملک کو ایک جارح ریاست کی حمایت پر تنقید کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے، تو پھر امریکہ خود کس طرح اسرائیل کی کھلی پشت پناہی کر سکتا ہے، جو فلسطین میں معصوم بچوں، عورتوں اور بے گناہ شہریوں کا قتل عام کر رہا ہے؟
امریکہ ہر سال اسرائیل کو اربوں ڈالر کی امداد دیتا ہے، جس میں جدید ترین ہتھیار، ٹینک، جنگی جہاز اور میزائل شامل ہوتے ہیں۔ یہ امداد اسرائیل کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ فلسطینی علاقوں میں وحشیانہ کارروائیاں جاری رکھے۔ جب اسرائیلی فوج غزہ میں رہائشی عمارتوں کو بمباری سے ملبے کا ڈھیر بنا دیتی ہے، یا اسپتالوں اور اسکولوں کو نشانہ بناتی ہے، تو یہ سب کچھ انہی وسائل سے ممکن ہوتا ہے جو امریکہ فراہم کرتا ہے۔ اس کے باوجود امریکہ دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔
یہ تضاد اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ عالمی سیاست میں اخلاقیات اور اصول اکثر طاقت کے کھیل میں ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ امریکہ کا اصل مقصد اپنے مفادات اور اتحادیوں کی حفاظت ہے، چاہے اس کے لیے انسانی جانوں کی قربانی دینی پڑے یا بین الاقوامی قوانین کو پامال کرنا پڑے۔ بھارت پر اعتراض اس لیے ہے کہ وہ امریکی پالیسی لائن پر نہیں چل رہا، جبکہ اسرائیل کی حمایت اس لیے جاری ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کا سب سے مضبوط اتحادی ہے۔
یہ صورتحال “جس کی لاٹھی اس کی بھینس” کی عملی تصویر ہے۔ طاقتور ملک اپنے مفاد میں اصول بناتے اور بدلتے ہیں۔ کمزور ممالک کو انہی اصولوں کی پاسداری پر مجبور کیا جاتا ہے، ورنہ پابندیاں، دھمکیاں اور دباؤ ان کا مقدر بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یوکرین کے معاملے میں امریکہ دنیا کو روس کے خلاف اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، مگر فلسطین کے معاملے پر اس کی زبان گنگ اور دل پتھر کا ہو جاتا ہے۔
دنیا کے باشعور عوام اور آزاد میڈیا بارہا اس دوغلی پالیسی کو بے نقاب کر چکے ہیں۔ تاہم، طاقتور ممالک کی اجارہ داری اور اقوامِ متحدہ جیسے اداروں کی کمزوری کے باعث انصاف کا ترازو ہمیشہ جھکا رہتا ہے۔ جب تک عالمی نظام میں حقیقی مساوات اور قانون کی بالادستی قائم نہیں ہوتی، اس قسم کی دوہری پالیسیوں کا سلسلہ جاری رہے گا، اور کمزور قومیں طاقتوروں کے رحم و کرم پر رہیں گی۔
آخرکار، یہ ہم سب کے لیے ایک سبق ہے کہ عالمی سیاست میں اخلاقی دعووں کے پیچھے ہمیشہ مفاد کی دیوار کھڑی ہوتی ہے۔ اور جب تک یہ دیوار موجود ہے، دنیا میں “جس کی لاٹھی اس کی بھینس” کا قانون چلتا رہے گا، چاہے قربانی کسی بھی کمزور قوم کو دینی پڑے۔