تحریر: داؤد درانی
ایرانی صدر مسعود پیز شکیان کے دروہ پاکستان کے حوالے سے آج مختلف اخبارات کی شہ سرخیاں پڑھ کر ہنسی بھی آئی اور دکھ بھی ہوا ۔
پاکستان کے راستے چین سے تجارت کی ایرانی خواہش
کوشش ہے کہ دو طرفہ تجارت کا حجم 10 ارب ڈالر تک پہنچے ایرانی صدر
پاک چین ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں فعال شرکت کے خواہاں ہیں ایرانی صدر
دونوں ممالک کے درمیان معاشی تعاون بڑھانے پر غور وزرائے خارجہ
لیکن جب یہ دوری ختم ہوگا تو رات گئی بات گئی کیونکہ کئی سال قبل جب ایران سے پائپ لائن کے زریعے تیل لینے کا معاہدہ ہوا تھا اس کا کیا ہوا ؟ ایران نے تو اپنے حصے کی پائپ لائن بچھا دی مگر پاکستان میں اس پر ایک انچ کا کام بھی نہیں ہوا کیونکہ امریکہ بہادر کا یہ حکم تھا اور ہے کہ پاکستان ایران کے ساتھ تجارت نہیں کرے گا اور پاکستان نے کہا کہ جو حکم میرے آقا ۔
تو اب یہ کیسے ممکن ہے کہ جناب ٹرمپ کی اجازت کے بغیر ایران پاکستان کے راستے چین سے تجارت کرے گا اور ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے میں شامل ہوگا ؟ امریکہ تو پاکستان اور چین کے سی پیک منصوبے کے خلاف ہے تو وہ ایران کو کیسے اس بات کی اجازت دے گا کہ وہ پاکستان کے راستے چین سے تجارت کرے ؟
چین اور ایران تو دونوں ہی امریکہ کے دشمن ہیں لہذا یہ باتیں فی الحال تو دیوانے کا خواب ہی ہیں جن کی تعبیر دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی اور اسی وجہ سے امریکہ نے آج کل پاکستان کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانا شروع کر دی ہیں اور پاکستان کو تجارت کے لارے دیے جا رہے ہیں تاکہ اسے چین سے دور کیا جا سکے ۔
امریکہ کو اب تک یہ غلط فہمی تھی کہ پاکستان کے دفاع کا سارا دارومدار صرف امریکہ اور یورپ کے جنگی سامان پر ہی ہے لہذا وہ بھارت کے ساتھ کسی بھی جنگ میں پاکستان کو نیچا دکھا سکتا ہے لیکن حالیہ پاک ، بھارت جنگ نے امریکہ کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے کہ پاکستان امریکہ کی مدد کے بغیر چین کے تعاون سے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کا نا صرف مقابلہ کر سکتا ہے بلکہ اسے شکست بھی دے سکتا ہے ۔
ایران بہرحال ایک طاقت ہے تو اگر اسے پاکستان اور چین کے ساتھ مل کر کام کرنے کا موقع ملا تو یہ تینوں ممالک ایک بڑی معاشی اور جنگی طاقت بن سکتے ہیں سو یہ بات امریکہ اور مغرب کو کیسے گوارا ہوگی کہ وہ ان تینوں ممالک کو اس بات کا موقع دیں کہ وہ امریکہ وغیرہ کے لیے خطرے کا باعث بنیں ۔
پچھلے دنوں ایران اور اسرائیل کے بیچ جو جھڑپیں ہوئیں اس نے یہ ثابت کر دیا کہ اگر ایران پچھلے طویل عرصے سے مغربی ممالک کی طرف سے پابندیوں کا شکار نا ہوتا تو وہ اسرائیل کو اس سے بھی سخت جواب دے سکتا تھا ۔
آج کل امریکہ کی طرف سے پاکستان پر جن مہربانیوں کی بارش ہو رہی ہے اس پر ہمارے حکمران تو یقیناً خوش ہیں اور اسے اپنی سفارتی کامیابی قرار دے رہے ہیں لیکن پاک ، امریکہ تعلقات کے ماضی کے ریکارڈ کو اگر دیکھا جائے تو ہمیں خوف محسوس ہوتا ہے کیونکہ امریکہ نے ہر مشکل مرحلے میں پاکستان کو دھوکہ دیا ہے چاہے وہ 1965 اور 1971 کی پاک ، بھارت جنگیں ہوں یا کہ افغان مسئلہ ۔ امریکہ نے پاکستان کو ہمیشہ ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا ہے اور مطلب براری کے بعد طوطے کی طرح آنکھیں پھیری ہیں لیکن اس کے باوجود ہم اب پھر خوش ہیں کہ عزت مآب ٹرمپ صاحب ہمیں بھارت پر فوقیت دے رہے ہیں جو ہمارے لیے باعث فخر ہے ۔
جب تک امریکہ نہیں چاہے گا پاکستان ایران کے ساتھ تجارت کو دس ارب تو کیا ایک ارب ڈالر تک بھی نہیں لے جا سکتا ہاں جس رفتار سے ایران سے پاکستان کو مختلف اشیاء کی سمگلنگ جاری ہے اس کے حجم میں یقیناً دس ارب ڈالر تک کا اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ اس غیر قانونی تجارت سے بہت بڑے بڑے لوگوں کی جیبیں بھر رہی ہیں