جمعه,  01  اگست 2025ء
غزہ میں انسانی بحران پر عالمی آوازیں

تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

فلسطین اور اسرائیل کے مابین تنازعہ ایک صدی سے زائد پرانا ہے۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد سے یہ مسئلہ شدت اختیار کرتا گیا، جس میں بارہا فلسطینیوں کو زبردستی بے گھر کیا گیا، ان پر حملے کیے گئے اور ان کی بنیادی انسانی حقوق کو مسلسل پامال کیا گیا۔ غزہ جو کہ فلسطینی سرزمین کا ایک مختصر مگر گنجان آباد علاقہ ہے، کئی دہائیوں سے اسرائیلی ناکہ بندی اور بمباری کا شکار رہا ہے۔

اکتوبر 2023 میں حماس کی طرف سے اسرائیلی حدود میں حملے کے بعد اسرائیل نے جوابی کارروائیوں کا آغاز کیا، جس کے نتیجے میں غزہ ایک بار پھر انسانی المیے کی علامت بن گیا۔ لاکھوں شہری محصور، بے گھر اور خوراک و پانی جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہوگئے۔ اس جنگ کے اثرات بین الاقوامی ضمیر کو جھنجھوڑنے لگے اور بالآخر دنیا بھر سے جنگ بندی کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔

یورپی یونین کے 20 ممالک سمیت دنیا کے 25 ممالک کے وزرائے خارجہ اور یورپی کمشنر برائے کرائسز مینجمنٹ نے حالیہ مشترکہ بیان میں اسرائیل کی امدادی پالیسی کو خطرناک اور غیر انسانی قرار دیتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ بیان نہ صرف غزہ کی تشویشناک انسانی صورت حال کو اجاگر کرتا ہے بلکہ اسرائیل کے امدادی ماڈل کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتا ہے جو “ڈرپ فیڈنگ” کے تحت شہریوں کو قطرہ قطرہ امداد فراہم کر رہا ہے۔

بیان میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ 800 سے زائد فلسطینی، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، صرف امداد کی تلاش میں شہید ہو چکے ہیں۔ ان اموات کی ذمہ داری اسرائیلی حکومت کے اس رویے پر عائد کی گئی ہے جو عالمی انسانی قوانین کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔

یہ اعلامیہ صرف ایک سفارتی بیان ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی ضمیر کی بیداری کی علامت بھی ہے۔ اگرچہ ماضی میں بھی عالمی برادری نے فلسطین کے مسئلے پر آواز بلند کی ہے، لیکن عملی اقدامات کی کمی نے ان بیانات کو محض رسمی قرار دیا۔ اس بار جن الفاظ میں اسرائیلی پالیسی کو “غیر انسانی، خطرناک، اور انسانی وقار کے خلاف” قرار دیا گیا ہے، وہ سفارتی انداز سے ہٹ کر ایک سخت اور کھلا احتجاج ہے۔

یہ بیان اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ امداد کی فراہمی کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا، نہ صرف بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ خطے میں مزید عدم استحکام کو ہوا دینے کے مترادف بھی ہے۔ فلسطینی عوام کو امداد کے لیے قطاروں میں کھڑا کرکے یا حملوں کا نشانہ بنا کر ان کی تذلیل کی جا رہی ہے۔

دوسری جانب، اسرائیلی یرغمالیوں کا ذکر بھی اس بیان کا حصہ ہے جو متوازن سفارتی لب و لہجہ ظاہر کرتا ہے، لیکن اس توازن کے باوجود بنیادی توجہ غزہ کے انسانی بحران پر مرکوز ہے۔

بیان میں جنگ بندی کی درخواست موجود ہے لیکن اسرائیل پر سفارتی یا اقتصادی دباؤ ڈالنے کی کوئی حکمت عملی واضح نہیں۔ اس سے ان بیانات کی حیثیت کمزور پڑ جاتی ہے۔

صرف بیانات اور قراردادیں کافی نہیں، ضرورت ہے کہ یورپی یونین اور دیگر ممالک اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں اور انسانی حقوق کی پامالی کے مرتکب ریاستی عناصر کے خلاف عملی اقدامات کریں۔

عالمی برادری کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ کسی ایک فریق کے ظلم پر خاموشی اور دوسرے فریق کی مزاحمت کو دہشت گردی قرار دینا ایک اخلاقی تضاد ہے، جس سے بین الاقوامی نظام انصاف کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔

دنیا کے 25 ممالک کی طرف سے جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ ایک خوش آئند قدم ہے، لیکن اس پر حقیقی اثر تبھی مرتب ہوگا جب یہ محض الفاظ سے نکل کر عمل کی صورت اختیار کرے۔ غزہ میں جاری انسانی المیہ عالمی برادری کے ضمیر کا امتحان ہے۔ اگر یہ امتحان خالی بیانات سے گزارا گیا تو تاریخ عالمی قوتوں کے کردار کو معاف نہیں کرے گی۔

انسانی وقار، بنیادی ضروریات اور معصوم جانوں کا تحفظ کوئی سیاسی معاملہ نہیں بلکہ ایک آفاقی انسانی فریضہ ہے۔ فلسطین میں امن صرف جنگ بندی سے نہیں بلکہ انصاف پر مبنی پائیدار حل سے ممکن ہے۔

مزید خبریں