جمعرات,  31 جولائی 2025ء
بنوں پلاؤ اور ہن ہناتے افسر

دوحرف/رشید ملک

پہلی بات تو یہ کہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے ایک درینہ دوست کی پر اسرار دعوت کے باوجود اس کے ساتھ بنوں پلاؤ کھانے نہیں جا سکا گویا اس طرح سے اللہ نے مجھے گدھے کے گوشت سے بنا ہوا پلاؤ کھانے سے محفوظ رکھا۔ بنوں پلاؤ،مرجان پلاؤ،سخی جان پلاؤ،خالص بنوں پلاؤ اور اس طرح کے دیگر بے شمار ناموں سے فروخت ہونے والے پلاؤ کی وجہ شہرت ان کا ذائقہ اور لذت ٹھہرائی جاتی ہے، لیکن پچھلے چند دنوں سے بنوں بیف پلاؤ ایک نئی وجہ شہرت کے حامل ہو چکے ہیں جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ تمام پلاؤ لذتوں سے مزین کرنے کے لیے ان میں گدھوں کا گوشت ملائے جانے،گدھوں کی ہڈیوں کی یخنی سے تیار کئے جانے کا انکشاف ہوا ہے، یہ پلاؤ عوام الناس کے ساتھ ساتھ وفاقی دار الحکومت کے مایا ناز اور طرم خان قسم کے افسران بھی بڑے شوق اور ذوق کے ساتھ اپنی فیملی کے ساتھ تناول فرمانا بڑے فخر کی بات سمجھتے تھے۔اب چونکہ یہ انکشاف ہو جانے کے بعد کہ بنو پلاؤ کی لذتیں گدھے کے گوشت اور اس کی ہڈیوں سے نکالی گئی مکھ اور گودے سے تیار کی جاتی ہیں۔ جب سے یہ انکشاف ہوا ہے دارالحکومت میں بسنے والے ہمارے یاران جگر اپنے حلقوں میں برملا اور سرعام صفائیاں دینے کے لیے اسے اپنا پسندیدہ مشغلہ بنائے ہوئے ہیں کہ انہوں نے کبھی شکر ہے بنوں پلاؤ سے مستفید ہونے کی کوشش نہیں کی اور آئندہ بھی کبھی اسے تناول نہیں فرمائیں گے،مگر ایک عجیب صورتحال سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے بعض بڑے دلچسپ اور دل کو لبھاء جانے والے کلپ مسلسل شیئر کیئے جارہے ہیں۔دلچسپ بات یہ کہ اور یاران من یہ کلپ شیئر کرنے کے بعد اپنی پوسٹوں پر خوبصورت تبصرے فرماتے ہوئے اپنے علمی ادبی اور شعوری ذوق کی برتری کو ثابت کرنے کے لیے پوری تندہی سے جملے مرتب کرتے ہیں۔ بہرحال انہیں اس کی داد ضرور ملنی چاہیے۔ سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹیں سکرول کرتے ہوئے دلچسپ اور مزاح سے مزین ایسی بے شمار پوسٹیں دیکھیں جن کو دیکھنے کے بعد ہنسی روکنا مشکل ہی نہیں ناممکن ٹھہرا۔مثال کے طور پہ ایک جان جگر دوست نے ایک کلپ بھیجا جس میں ایک تھری پیس میں ملبوس امیر زادہ اپنی دل ربا کو ایک مہنگے ہوٹل میں لے کر جاتا ہے اور گاڑی کو پارک کرتے ہوئے دلتی مار کر اس کا دروازہ بند کرتا ہے اس کی یہ حرکت نوٹ کیے بغیر اس کی وہ معشوق دلربا اپنے بوائے فرینڈ سے مطالبہ کرتی ہے کہ میں قطعا بھی کھانے میں کوئی پلاؤ وغیرہ نہیں لوں گی اسی طرح کے دوسرے کلپ بھی مزاح سے مزین ہیں، لیکن دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ اسلام آباد میں تعینات بڑے بڑے افسران کا اپنی سرکاری ڈیوٹی سے ہٹ کر موضوع بحث اور دلچسپ مشغلہ بنوں پلاؤ پر روشنی ڈالنا ہے۔اگرچہ یہ افسران اپنی صفائی بڑے فلسفیانہ انداز میں دیتے ہیں کہ اللہ کا شکر ہے ہم نے تو جی کبھی بنوں پلاؤ کی طرف دیکھا بھی نہیں۔ کئی بار گزرتے ہوئے سڑک کے کناروں پر بنوں پلاؤ کے لگے ہوئے بورڈ جگمگا رہے ہوتے ہیں مگر ہم اس کی طرف انکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ ابھی ان دعووں کا سلسلہ جاری و ساری تھا کہ عین اس وقت وفاقی دار الحکومت میں تعینات ڈی سی صاحب بہادر میرے محترم جناب عرفان میمن کا ایک ویڈیو پیغام شرف دید کا مستحق ہوا جس میں انہوں نے گدھوں کے گوشت کی خاصیت و اہمیت اور اس کے منفعت بخش ہونے پر اپنی ذہانت پاشی کی ہے۔اور گدھے کے گوشت کے حفظان صحت کے عین مطابق ہونے کی تفصیلی افادیت سے قوم کو بہرہ مند فرمایا ہے،اور ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی فرما دیا کہ یہ گوشت اگرچہ دارالحکومت میں پلاؤ مراکز یا ہوٹلوں میں استعمال نہیں ہوتا تھا بلکہ یہ غیر ملکیوں کو فراہم کیا جاتا تھا جس سے اچھا خاصا زر مبادلہ ہمارے کاروباری احباب کے لیے دستیاب ہوتا تھا۔عرفان میمن کے اس بیان سے اسلام آباد کے افسران کی صفائیوں اور پاک دامنیوں کے بیانات پر جو پانی پھرا ہے وہ تو ایک طرف رہ گیا تاہم ایک چیز بہت کھل کر واضح ہو گئی کہ انتظامیہ اپنے فرائض سے کس قدر غافل ہے۔یعنی پلاؤ بیچنے والے اسلامی ملک کے دنیا میں خوبصورت دار الحکومت اسلام اباد میں دیدہ دلیری سے انسانوں کو گدھوں کا حرام گوشت کھلانے میں بالکل بھی کسی خوف یا ڈر کا شکار نہیں ہیں۔ یہاں میں چھوٹی سی ستائش فوڈ سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کے ان افسران کی کرنا چاہوں گا جنہوں نے بے شک دیر سے ہی سہی اس مکروہ دھندے کا سراغ لگا کر منوں کے حساب سے گدھوں کا گوشت برآمد کیا اور درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں گدھے سرکاری تحویل میں لے لیے اس پر اس محکمے کی اس معمولی کاوش کا سراہا جانا لازم ہے، لیکن یہاں ایک تبرہ ان افسران پر بھیجنا بھی ناگزیر ہے جو لاکھوں روپے کا پٹرول درجنوں ملازم اور پروٹوکول سکواڈ کے ساتھ اس شہر کے انتظام و انصرام کے لیے تعینات ہیں مگر بحر غفلت میں اس قدر غوطہ زن ہیں کہ گدھوں کے گوشت اور ہڈیوں کی یخنی میں بنے ہوئے بنوں پلاؤ اپنی فیملیوں کے ساتھ تمام تر لذتوں کے ساتھ تناول فرماتے دیکھے گئے ہیں، مگر اپنی ذمہ داریوں سے اس قدر غافل کہ خود حرام خوری کے ساتھ ساتھ شہریوں کو بھی گدھوں کے گوشت میں بنے ہوئے پلاؤ کھانے پر مجبور کردیا۔ یہ افسران جب کبھی اعلی حکام کے سامنے ہوتے ہیں تو اصل کام سے توجہ ہٹانے کے لیے گھڑی ہوئی کہانیاں سنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے حکام اگر کوئی بات کرتے ہیں تو یہ جی حضوری میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے مجھے کوئی حیرت نہیں ہوتی جب یہ افسران اپنے کسی حکمران کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے بہلا سہلا کر کہیں محفل میں بیٹھتے ہیں تو اپنے کارنامے گنواتے ہوئے بڑی بلند آوازوں سے ہن ہناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور ان کے ٹھٹھوں قہقوں کی آوازیں ارد گرد کے دوسرے لوگ بھی سن کر ان کی طرف متوجہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ آخر میں یہی کہوں گا کہ اگر یہ ہن ہاتے افسران اپنے فرائض سے غفلت برتتے ہیں تو پھر بنوں پلاؤ کی صورت میں انہیں اور ان کے اہل خانہ کو بھی حرام کھانا پڑتا ہے،اس صورتحال پر عوام پریشان ہیں تو ان افسران کو بھی یقینا غور کرنا پڑے گا ورنہ گدھوں کے گوشت میں تیار ہوا ہڈیوں کے گودے میں بنا ہوا بنوں پلاؤ ان کے منو رنجن کے لیے ہمیشہ دستیاب ہوگا۔ ہوٹلوں کی لمبی ٹیبلوں پر اور گھر کے دسترخوانوں پر سجا ہوا ان کو ہنہناتا دیکھ کر مسکراتا رہے گا۔

مزید خبریں