منگل,  29 جولائی 2025ء
جب نام ترا لیجیو، تب چشم بھر آوے

سید شہریار احمد

ایڈوکیٹ ہائی کورٹ

جب نام ترا لیجیو

تب چشم بھر آوے

اس طرح کے جینے کو

کہاں سے جگر آوے

پاکستانی معاشرہ اس وقت شدید ذہنی دباؤ اور تناؤ کی کیفیت سے گزر رہا ہے ۔

معاشی بدحالی، سیاسی ابتری !لسانی اور فرقہ وارانہ عدم اعتماد اور خاندانی ٹوٹتے اور بکھرتے ہوئے رشتے اور اس میں پستے ہوئے

ہم

ہر فرد، ہر لمحے !مایوسی اور نا امیدی کا شکار۔

نہ گھر میں سکون

نہ باہر چین

نا انصاف ،نہ قانون، نہ لحاظ، نہ ہی آدمیت کا احترام۔

بس چار سو خود غرضی، مفاد پرستی !نفرت، سازشوں کے جال اور

ہم

اب اس ساری صورتحال سے نکلنے اور معاشرے کو سیدھی راہ پر ڈالنے کے طریقہ کار تو سماجی ماہرین طے کریں گے جو معاشروں کا مطالعہ کرنے میں مہارت رکھتے ہوں۔

اگر میری بات کریں تو میں کہوں گا کہ اب سماجی تنزلی،ٹوٹتےرشتے،انسانی اخلاقیات کا انحطاط اور مزید ظلمت کی کھائیوں میں گرنے کی سوا کوئی چارہ نہیں ہے

لیکن دین دار لوگ، نمازی اور مولویوں اور عالموں کے پیچھے چلنے والے ریوڑ، ان برے حالات میں بھی امید کی شمع روشن کرتے رہیں گے۔

نفسیات دان ،معاشرے کی اجتماعی سوچ اور رویوں کا تجزیہ کر کے ہمیں حالات کی بہتری کے لیے حل تجویز کرتے رہیں گے۔

نفسیات میرا مضمون نہیں ہے لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ یہ انسانی کردار سے بحث کرتا ہے

اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ انسان کا ایک ظاہری کردار ہوتا ہے اور ایک باظنی۔

ظاہری کردار تو سب کو نظر آتا ہے جبکہ باطنی کردار فرد کے اندر کہیں چھپا ہوتا ہے۔ ماہر نفسیات ،فرد کے ظاہر اور باطن دونوں کرداروں کا احاطہ کرتے ہیں۔

نفسیات ایک جدید علم ہے اس کی ابتدا 19ویں صدی کے نصف آخر میں ہوئی لیکن اس کا مواد نہایت قدیم ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ انسانی کردار کو سمجھنے کے لیے ہمیں نفسیات کے ساتھ ساتھ ادب، آرٹ،فلسفہ اور دیگر علوم سے بھی مدد لینی چاہیے۔

آپ کا کیا خیال ہے ؟

اگر سو سال کی علم نفسیات کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں بڑی تیز رفتاری سے تبدیلیاں آئی ہیں۔

فرائیڈ کی تحلیل نفسی اور وونٹ کی تجرباتیت تو 19ویں صدی کی باتیں ہیں۔ بیسویں صدی میں روسی اور امریکی کردار یت پسندی کا نظریہ بہت معروف رہا۔

اس کے بعد وقوف پسندی کا غلغلہ اور پھر مختلف مکاتب فکر کو ملا کر ایک نئے کل کی تلاش ہوئی اور پھر اس بات کا بھی شدت سے احساس کہ جدید نفسیات کی دریافت، زیادہ تر شمالی امریکہ میں ہوئی ہے اور اس پر وہاں کی ثقافت کا غلبہ ہے۔

ایک اور تحریک کا فروغ ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ مقامی نفسیات کو فروغ دیا جائے اور ہر علاقے کے معاشرے اور ثقافت کو مد نظر رکھتے ہوئے نفسیات دان اس حوالے سے اپنے ماڈل خود تیار کریں۔

اس سوچ نے خاص طور پر تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں کام کرنے والے ماہر نفسیات میں یہ شعور پیدا کیا کہ انہیں صرف ترقی یافتہ مالک میں ہونے والی تحقیقات ہی کی نقلیں اپنے ہاں تیار نہیں کرنیں بلکہ ہر معاشرے اور ثقافت کے مطابق حقیقی نمونے بھی تیار کر لیے جائیں۔

اب آپ دیکھیے گا کہ جدید زندگی ہر روز بدل رہی ہے۔ زندگی اور حالات، تیزی سے کروٹ لے رہے ہیں۔

نت نئے چیلنجز سامنے آتے ہیں اور زندگی ہمارے لیے ہر روز نئے چیلنجز اور نئے مسائل سامنے لا کھڑا کرتی ہے۔

جدید دور میں جہاں انسان کے لیے ڈھیروں آسانیاں اور آسائشیں فراہم کی گئی ہیں وہیں انسانیت کے لیے نئے نئے دکھ، بیماریوں اور الجھنوں نے بھی زندگی پائی ہے۔

اب ہم ایک طرف تو جدید زندگی کی ترقی سے متاثر ہوتے ہیں اور اس سے باقاعدہ لطف اندوز ہوتے ہیں جبکہ دوسری جانب یہ ترقیاتی ماڈلز استعمال کرنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تناؤ اور دباؤ سے بچنا بھی جاہتے ہیں جو کہ میں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں باتوں کا بیک وقت وقوع پذیر ہونا تقریبا ناممکن ہے۔

ویسے تو نفسیات کا کردار ، فرد کو معاشرے سے مطابقت اختیار کرنے میں مدد دینا ہوتا ہے لیکن پھر ہم دیکھتے ہیں کہ آہستہ آہستہ جب اس انسان میں شعور بیدار ہوتا ہے تو اس کے ساتھ معاشرے میں اور بہت ساری خرابیاں اور انتشار پیدا ہو چکے ہوتے ہیں۔

تو پھر کیا ایسے معاشرے سے مطابقت پیدا کرنا اور اگر کر بھی لے تو کیا اسے ایک مستحسن قدم قرار دیا جا سکتا ہے؟

آج ہمارے ملک میں فرد کی زندگی، بہت سی مشکلات سے دوچار ہے جن پر قابو پانے کے لیے ،خاص طور پر نفسیاتی نوعیت کی مدد، نفسیاتی علم اور رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے ۔

علم نفسیات کے جدید افکار اور اصولوں کی روشنی میں نفسیات دان، پاکستانی معاشرے میں رہنے والے افراد کی نفسیاتی الجھنوں اور مسائل پر کس حد تک قابو پا سکتے ہیں یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے ۔

ایک پرسکون زندگی میں بنیادی بات اس نقطے کے گرد گھوم رہی ہے کہ روئے زمین پر بسنے والے تمام انسان ،اس بات کے مستحق ہیں کہ وہ پرسکون زندگی بسر کریں۔

انسان کی ساری تگ و دو سکون کے حصول کے لیے ہوتی ہے

اور میں پھر یہی کہوں گا کہ جہاں تک میری بات ہے اس لیے اب آپ سکون کی تلاش ترک کر دیں کیونکہ اب آپ کی

آہوں /سسکیوں/ آنسوؤں اور دعاؤں میں کوئی اثر نہیں رہا

اور خدا بھی دور

کہیں دور

بہت دور

اور جہاں تک میری بات ہے تو میں پھر یہی کہوں گا کہ اب آپ

بے سکونی ،وہم ،نا امیدی کو اپنا شریک حیات بنا لیں تو یہی آپ کے لیے بہتر ہے

اہے خدا

جب نام ترا لیجیو

تب چشم بھر آوے

اس طرح کے جینے کو

کہاں سے جگر آوے

مزید خبریں