پیر,  28 جولائی 2025ء
اسلام آباد میں ندی نالوں پر قائم تجاوزات

تحریر: ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک بھر میں ندی نالوں پر تعمیرات اور تجاوزات کا مسئلہ ایک دیرینہ اور پیچیدہ مسئلہ رہا ہے، جس کے نتائج وقتاً فوقتاً ہولناک قدرتی آفات کی صورت میں سامنے آتے رہے ہیں۔ حالیہ مون سون کی بارشوں کے دوران اسلام آباد، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں تباہ کن سیلابی ریلے آئے، جنہوں نے نہ صرف انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچایا بلکہ سیکڑوں انسانی جانیں بھی نگل لیں۔
پاکستان میں تجاوزات اور غیرقانونی تعمیرات کی تاریخ کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ 1970 کی دہائی کے بعد سے آبادی میں تیزی سے اضافے اور شہری علاقوں کی بے قابو توسیع نے زمینوں پر دباؤ بڑھا دیا۔ حکومتی زمینیں، ندی نالوں کے کنارے، قدرتی راستے اور جنگلاتی علاقے رہائشی، کمرشل اور سیاحتی تعمیرات کا شکار بنتے گئے۔ ان تجاوزات میں اکثر بااثر افراد، سیاسی سرپرستی یافتہ افراد یا ادارہ جاتی غفلت ملوث رہی ہے۔
اسلام آباد جو 1960 کی دہائی میں ایک منصوبہ بند شہر کے طور پر ابھرا تھا، وقت کے ساتھ ساتھ غیرقانونی آبادکاری اور تجاوزات کی لپیٹ میں آتا گیا۔ مارگلہ ہلز کے دامن سے لے کر کورنگ نالے تک اور ای الیون، ایف الیون، بنی گالا اور بارہ کہو جیسے علاقوں میں ندی نالوں کے قریب تجاوزات میں بے تحاشا اضافہ دیکھا گیا۔
وفاقی حکومت کی جانب سے اسلام آباد میں ندی نالوں پر قائم عمارتوں اور دیگر تجاوزات کے خلاف کارروائی کا فیصلہ ایک خوش آئند قدم ہے، مگر یہ فیصلہ ایک طویل غفلت کے بعد سامنے آیا ہے۔ حالیہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں ندی نالوں پر قائم عمارتوں کو “خطرناک” قرار دے کر قانون کے مطابق سیل کرنے اور ان کے مالکان کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا گیا ہے۔
اس اقدام کا مقصد صرف اسلام آباد ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں ایک واضح پیغام دینا ہے کہ سرکاری زمینوں پر قبضہ، ندی نالوں کے قدرتی بہاؤ میں مداخلت اور غیر قانونی تعمیرات نہ صرف قانون شکنی ہے بلکہ انسانی زندگیوں کے لیے سنگین خطرہ بھی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی نے پاکستان کے جغرافیائی تناظر میں خطرناک اثرات مرتب کیے ہیں۔ ماضی میں جو بارشیں نسبتاً متوازن تھیں، اب وہ شدید موسلادھار بارشوں اور طغیانی میں بدل چکی ہیں۔ لینڈ سلائیڈنگ، گلیشیئرز کے پگھلنے اور ندی نالوں میں اچانک طغیانی کے واقعات معمول بنتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں ندی نالوں کے قریب انسانی آبادیاں یا ریسٹ ہاؤسز کی موجودگی المیوں کو جنم دے رہی ہے۔
سیاحوں کی ایک بڑی تعداد پہاڑی علاقوں کا رخ کرتی ہے، جہاں بنیادی سہولیات اور حفاظتی اقدامات کا فقدان ہوتا ہے۔ نتیجتاً طوفانی بارشوں یا لینڈ سلائیڈنگ کی صورت میں جانوں کا ضیاع ہوتا ہے، جس کی مثال حالیہ بارشوں کے دوران نظر آئی۔
اس سنگین صورتحال کی بنیادی وجوہات میں ناقص منصوبہ بندی، ادارہ جاتی ناہمواری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی خاموشی یا کمزوری شامل ہے۔ کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (CDA) اور دیگر ادارے اگر بروقت اپنی ذمے داریاں ادا کرتے، تو ندی نالوں پر ناجائز تعمیرات نہ ہوتیں، اور اتنے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان نہ ہوتا۔
ندی نالوں، قدرتی راستوں اور سرکاری زمینوں پر تعمیرات کے خلاف ملک گیر مہم کا آغاز کیا جائے جس میں ضلعی، صوبائی اور وفاقی سطح پر تعاون شامل ہو۔
ایسے قوانین کا اطلاق ہو جو سرکاری زمین پر قبضہ اور خطرناک مقامات پر تعمیرات کو قابلِ سزا جرم قرار دیں۔
پہاڑی علاقوں میں سیاحت کے لیے حفاظتی ضوابط مرتب کیے جائیں اور موسمی پیش گوئی کی روشنی میں سیاحوں کی آمد و رفت کو منظم کیا جائے۔
موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ندی نالوں، پہاڑیوں اور دیگر حساس علاقوں کی حفاظت کے لیے ماحولیاتی ضابطے بنائے جائیں۔
میڈیا، اسکولوں، یونیورسٹیوں اور بلدیاتی اداروں کے ذریعے عوام کو تجاوزات کے خطرات اور قدرتی آفات سے بچاؤ کے طریقوں سے آگاہ کیا جائے۔
اسلام آباد اور دیگر علاقوں میں ندی نالوں پر قائم تجاوزات کے خلاف حکومتی اقدام نہ صرف ایک دیرینہ مسئلے کی جانب عملی پیش رفت ہے بلکہ ماحولیاتی تحفظ اور انسانی جانوں کی سلامتی کی جانب ایک اہم سنگ میل بھی ہے۔ البتہ اس کے مؤثر نتائج اسی صورت ممکن ہوں گے جب یہ اقدامات مستقل، قانون پر مبنی اور ہر قسم کے سیاسی دباؤ سے آزاد ہوں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم قدرتی نظام کو چھیڑنے کے نتائج سے سبق سیکھیں اور اپنی آئندہ نسلوں کے لیے ایک محفوظ ماحول چھوڑ کر جائیں۔

مزید خبریں